دکن میں گنگا جمنی تہذیب کی کچھ جھلکیاں
{پی نرسا ریڈی سے یہ انٹریو دو الگ الگ ملاقاتوں میں لیا گیا ہے، جو روزنامہ اعتماد اور سیاست میں شائع ہوا تھا۔}
پی . نرسا ریڈی کو زیادہ تر اُردو داں لوگ شنکر جی میموریل سوسائٹی کے صدرکے طور پر جانتے ہیں‘ نرمل میں ایک وکیل کے گھر پیدا ہوئے۔ نرسا ریڈی کوان کی والدہ ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں، لیکن قسمت سے وہ بھی وکیل بن گئے اور پھر ریاست کی سیاست میں بھی انہوں نیاپنے یاد گار نشان چھوڑے ہیں۔تقریباً15برس تک ایم ایل اے رہے۔پارلیمنٹ کے لیے بھی منتخب ہوئے۔پردیش کانگریس کی صدارت کا موقع ملا۔وزیر مال کے طور پر انہوں نے بڑے پیما ے پر اصلاحات لائیں۔تقریباً ساڑھے تین دہوں تک شنکر جی میموریل سوائٹی کے صدر رہے۔ان سے بات چیت کاخلاصہ پیش ہے:
میری پیدائش 18آبان 1339 ء فصلی کو ضلع عادل آباد کے نرمل میں ہوئی جو 22؍ ستمبر1930 ء یا 1931 ء کے مطابق بتائی جاتی ہے ۔ والد وکیل تھے۔ جب میں صرف دو سال کا تھا تو والد کا انتقال ہوگیا۔ ان کے بارے میں جو کچھ میری معلومات ہیں وہ دوسروں سے سنی ہوئی ہیں۔ بتاتے ہیں کہ وہ وکالت کے ساتھ ساتھ زراعت اور تجارت بھی کرتے تھے۔ ہمارے علاقے کے مانے ہوئے وکیل صدیق خاں صاحب سے ان کی اچھی دوستی تھی۔
میری تعلیم زیادہ تر حیدرآباد میں ہی ہوئی۔ پھوپھا دیشمکھ مورتاڑ یہیں رہتے تھے پھوپھی مجھے بہت چاہتی تھیں۔ انہیں کی عنایت تھی کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکا۔ انہوں نے میرا داخلہ اپنے بھانجوں کے ساتھ سینٹ جوزف گرامر اسکول میں کرادیا تھا۔ پہلے پہل پیدل یا سیکل پراسکول جاتے تھے لیکن جب پھوپھا نے دیکھا کہ ان کے بھانجے بیمار پڑنے لگے ہیں تو انہوں نے ایک تانگہ لگا دیا تھا۔ اسکول کے نصاب میں عیسائی مذہب کی کتابیں بھی تھیں‘ جو دلچسپی نہ ہونے کے باوجود بھی پڑھنی پڑتی تھیں۔ ایک بار حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایک مضمون لکھنا تھا۔ اس مضمون میں مجھ کو جماعت میں سب سے زیادہ (80)نمبر ملے تھے۔ یہ جونےئرکیمبرج کا دور تھا۔ اور پرچے جانچ کے لئے جہاز سے لندن جاتے تھے۔ اتفاق سے اگر جہاز کے ساتھ پرچے ڈوب گئے یا خراب ہوگئے تو امتحان پھر سے لکھنا پڑتا تھا۔ چنانچہ اب اسکول بورڈ نے پرنسپال مسٹر فلپس سے کہا کہ اس لڑکے کو انعام دینا چاہئے جس نے 80نمبر حاصل کئے ہیں۔ پرنسپال جب جماعت میں آئے تو انہوں نے پہلے تو ان بچوں کو ہاتھ اٹھانے کوکہا جوکرسچین ہیں۔ ان سے جب کہا گیا کہ ایک لڑکا جو کرسچن نہیں ہے ،اس نے کرائسٹ کی زندگی پر لکھے مضمون میں سب سے زیادہ اور امتیازی نمبر حاصل کئے ہیں‘ تو وہ حیران ہوگئے۔ طلباء کی جانب سے جب کچھ شبہات ظاہر کئے گئے تو انہوں نے کہا کہ یہ پرچے کیمبرج میں جانچے گئے ہیں اور پھر سب کے سامنے اعلان کیا گیا کہ اسکول کی سالانہ تقریب میں مجھے انعام دیا جائے گا۔ مجھے اس تقریب میں اسکول کا ایک تمغہ اور نیلا ربن گلے میں ڈال دیا گیا اور پارکرپین دیا گیا تھا ۔ شاید مجھے زیادہ نمبر اس لئے بھی ملے تھے کہ میں نے اس مضمون میں ایک ایسی کتاب کے بھی حوالے دئیے تھے جو نصاب میں شامل نہیں تھی۔
شاگرداور اساتذہ کا رشتہ:
مجھے آج بھی اس بات شدت کا سے احساس ہوتا ہے کہ ہماری زندگی میں اساتذہ کابہت بڑا رول تھا۔ استاد اورشاگرد کا رشتہ کافی مضبوط ہوا کرتا تھا۔ والدین خود بچوں میںیہ احساس پیدا کرتے تھے۔ اس کے بارے میں والدین کو چھٹی لکھی جاتی۔ اساتذہ کو اپنے شاگردوں سے ایک خاص قسم کی ہمدردی ہوا کرتی تھی۔ ایک بار ہوایوں کہ میری سائیکل کی چین گر گئی ۔ اس کو چڑھاتے ہوئے میری انگلی زخمی ہوگئی۔ میں نے اس پر رومال باندھ لیا اسی حالت میں اسکول چلا گیا۔ آسٹریلین ٹیچر ہوزڈن صاحب کی نظر جیسے ہی میرے ہاتھ پر پڑی انہوں نے مجھے بلایا اور یہ جان کربڑے فکر مند ہوئے کہ انگلی زخمی ہے اور فوری لیباریٹری لے گئے۔ زخم دھویا، دوالگائی اور کہا کہ کل یاپرسوں پھر ایک بار دوا لگائی جائے گی۔ آج کا ماحول دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ سارا تعلیمی نظام کمرشل ہوگیا ہے ۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ جیسے تعلیم بیچنے اور خریدنے والے کا ہی رہ گیا ہے۔
نظام کالج میں جب داخل ہوا تو وہاں جسٹس سردار علی خاں واسود یو پلے اور اوماپتی کے علاوہ ڈاکٹر یوسف میرے ہم جماعت رہے۔ وہاں کا ماحول ہی الگ تھا۔ ڈسپلن بہت زیادہ تھا۔ اچھا پڑھنے والے طلباء کی کافی قدر ہوا کرتی۔
نام کو بٹہ نہ لگے:
والدہ چاہتی تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ اسی مقصد سے مجھے میڈیکل کالج میں داخلہ دلایا گیا۔ وہاں میں تین مہینے رہا۔ میں انگریزی ذریعہ تعلیم سے آیاتھا۔ یہاں طب کی ساری سائنٹفک اصطلاحیں اردو میں تھیں۔ ان کو اردو میں یاد کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ اور اسی طرح چھ سال پڑھنا پڑتا تھا۔ مجھے امید نہیں تھی کہ میں اس میں پاس ہوجاؤں۔ اگر فیل ہوجاتا تو نام کو بٹہ لگ جاتا۔ یہی خیال میں نے پھوپھا ، پھوپھی اور والدہ کے سامنے بھی ظاہر کیا۔ انہوں نے اجازت دی کہ میں معیاشیات اور سیاسیات سے ڈگری کروں۔ حالانکہ یہ بھی سب اردو میں ہی پڑھنا پڑتا تھا۔ لیکن طب کے مقابلے میں آسان تھے۔ اسی طرح 1952 ء میں میں نے قانون کی تعلیم مکمل کی اور سداشیورامیا کا جونےئر بن گیا۔ وہ جسٹس قمر حسن صاحب کے جونےئر تھے۔ جب وہ جج بن گئے تو انہوں نے اپنا سارا اجلاس اور پریکٹس سداشیوصاحب کو دے دی۔ وہ بڑی اچھی طبیعت کے مالک تھے۔ جونےئر وکیل کو اپنے گھر کافردبنالیتے تھے۔
واحد اویسی صاحب کی خوش مزاجی:
سدا شیوصاحب اپنے جونےئرس کو کچھ دن کے لئے ماہر وکلاء کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ اسی دوران مجھے عبدالواحد اویسی صاحب کے پاس بھیجا گیا۔ وہ (Suit for money)کے مقدمات میں کافی ماہر تھے۔ دستاویزنہ رہنے پر صرف رجسٹرپرکیس لڑنا آسان نہیں تھا۔ لیکن اویسی صاحب اس معاملے میں جرح کرنا خوب جانتے تھے۔ وہ بڑے خوش مزاج انسان تھے۔ عمر میں بڑے ہونے کے باوجود اپنے جونےئر سے ان کا معاملہ کافی دوستانہ رہا کرتا تھا۔ ان دنوں مدینہ ہوٹل کی بریانی کافی مشہور تھی۔ جب سب جونےئر جمع ہوجاتے ‘وہ منشی سے کہہ دیتے کہ میاں 7پلیٹ بریانی جلدی لے آنا۔ میں ان کے پاس تقریباً آٹھ سے دس مہینے رہا۔ اور وہاں کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ تقریباً6سال شہر میں پریکٹس کے بعد میں والدہ کے پاس واپس نرمل چلا گیا۔
بکروں کی چٹیاں (رسیدیں)
نرمل ، بھینسیہ ، بودھن اور عادل آباد کی منصفی عدالتوں میں میری پریکٹس چل رہی تھی۔ چوں کہ میں ہائی کورٹ سے آیا تھا شہر کے اعلیٰ چوٹی کے وکلاء سے میرا ربط تھا۔ نظائر پڑھنا اور بحث کرنا وغیرہ پر یہاں کا اثر تھا۔ اس لئے چند ہی دنوں میں وہاں میں نے کافی نام کمایا۔ میری پریکٹس کا طریقہ بھی یہ تھا کہ میں کسی سے زبردستی فیس وصول نہیں کرتا تھا۔ وہ جو بھی دے دیتے میں قبول کرلیتا۔ کئی غریب لوگ آتے تھے ، لوگوں کے پاس پیسہ نہیں تھا۔ چنانچہ لوگ جانوروں کی چٹیاں لے کر آتے تھے اور کہتے تھے کہ وکیل صاحب ہماری بکروں کی چٹی رکھ لیجئے ۔ میں وہ چٹی لے کر کیا کرتا کیا بکریاں جمع کرکے چرانا تھوڑی ہی تھا۔ دروازے کے پیچھے ایک تھیلی لٹکادی تھی۔ جو چاہے اس میں ڈال دے۔ عجیب حالات تھے ۔ لوگ مقروض ہو جاتے ، قرض دہندے آکر ان کی زمین پر قبضہ کرلیتے ۔ مقدمہ لڑکر سرمایہ داروں سے وہ زمین واپس حاصل کرنی پڑتی۔ جو خود مقروض ہوں ان کے پاس جانوروں کی چٹی کے علاوہ کیا ہوگا؟ ہاں وراثت کے جھگڑوں میں اچھے پیسے ملتے تھے۔ خصوصاً اس وقت اوطان کے جھگڑے بہت زیادہ تھے۔ اس سب حالات سے واقف ہونے کی وجہ سے ہی ریوینو سنٹر رہنے کے دوران میں نہ صرف ریونیو بورڈ برخواست کئے ،بلکہ یہ اوطان اور زمینداری میں بھی اس وقت کافی اصلاحات لائے گئے۔ اس وقت ایک سرمایہ دار دوسرے سرمایہ دار سے لڑتا تھا۔ اور زیادہ تر معاملے دیوانی کے ہوتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مقدموں کی نوعیت بھی بدلی اور فوجداری کے معاملے بڑھتے گئے ۔ اب ایک سیاستداں دوسرے سیاست داں سے اور ایک غنڈوں کی ٹولی دوسری غنڈوں کی ٹولی سے جھگڑا کرتی ہے۔
سیاست میں داخلہ:
1960 ء کی بات ہے کہ ضلع کی عدالت میں سرکاری وکیل کی جائیداد خالی ہوگئی۔ ضلع کلکٹر اور ڈسٹرکٹ جج دونوں نے اس کے لئے میرا ایک ہی نام حکومت کو بھیجا۔ جے نرسنگ راؤ اس وقت ضلع کے انچارج وزیر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا پسندیدہ امیداوار اس عہدے کے لئے منتخب کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے وزیر قانون کے وی رنگاراؤ سے شکایت کی کہ ایک ہی امیداوار کا نام کیسے بھیجا جاسکتا ہے۔اس لئے اس سفارش کو واپس بھیج دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے جب وزیر سے پوچھا کہ کیا تمہاری نظر میں کوئی دوسرا شخص ہے ، تو وزیر نے ایک امیدوار کا نام بتایا ۔ جس کو ضلع کی عدالت میں بہت کم دیکھا گیا تھا۔ اسی دوران چیف منسٹر سنجیویا کو جب میرے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ مجھے سرکاری نوکری کرنے کے بجائے تنظیم (پارٹی)میں آنا چاہئے۔ انہوں نے اس تعلق سے گاندھی اور نہرو کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ملک کی تعمیر میں اہم رول ادا کیا ہے۔ میرے چچا نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ ایک ہونہار بچے کو سرکاری عہدہ سے محروم کیا جارہا ہے۔ پھر انہیں دنوں ضلع پریشد کے انتخابات میں مجھے ضلع پریشد کی صدارت کا امیدوار بنانے کی بات چلی۔ اس کی مخالفت بھی موصوف وزیر نے کی ۔ اور اس کے لئے میراحمد علی خاں صاحب کو آبزور کے طورپر بھیجا گیا تھا ۔ اس وقت وہ نائب صدر بھی تھے۔ نائب صدر کی بہت اہمیت ہوا کرتی تھی۔ ان کی رائے بھی میرے حق میں ہی تھی۔ میری مخالفت میں وزیر موصوف نے کمیونسٹوں کو کھڑا کیا ، چیف منسٹر صاحب نے ان کو بلا کر ڈانٹا اور پھر انہوں نے خود ضلع پریشد صدر کے طورپر میرے نام کو قطعیت دے دی۔
یہی معاملہ اسمبلی کے انتخابات میں بھی رہا۔ ضلع پریشد کے صدر کے طورپر 2 سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ اسمبلی کے انتخابات آگئے۔ سب لوگوں نے کہا کہ مجھے ایم ایل اے بننا چاہئے۔ اس وقت تک میں نے پریکٹس چھوڑ دی تھی۔ اس وقت صدر پردیش کانگریس پلم راجو تھے۔ انہوں نے ایک تحریک شروع کی تھی کہ پڑھے لکھے اور ہونہار نوجوانوں کو سامنے لانا چاہئے ۔ ہائی کمانڈ نے ان کی بات مان لی اورمیں اندرونی مخالفت کے باوجود بھاری اکثریت سے چناؤ جیت گیا۔ 1978 ء تک میں ایم ایل اے رہا۔ اس دوران ریونیو اور آبپاشی وزارتوں کو سنبھالنے کے موقع ملا۔ یہاں میں نے وطن داری سسٹم ختم کرنے کی کوشش کی۔ پروفیسر ہیمن ڈراف نے اپنی کتاب قبائیلیوں کے لئے کام کرنے والوں میں معظم حسین صاحب کے ساتھ میرا بھی ذکر کیا ہے۔
صلاح الدین ،اویسی صاحب کی تقریر:
اسمبلی میں تقریباً10سال تک صلاح الدین اویسی صاحب کے ساتھ رہنے کاموقع ملا۔ مانا کہ ہم الگ الگ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن میل ملاپ ضروری تھا۔ بعد میں وہ ایم پی بن کر دہلی چلے گئے۔ اسمبلی کی معیاد میں وہ بڑے زور دار مقررتھے۔ بی وی سباریڈی اسپیکر تھے۔ وہ اویسی صاحب کی تقریر سن کر کہتے ’’کاش میں اردو جانتا‘‘ صرف وہی نہیں بلکہ سارے لوگ ان کی تقریر سے متاثر تھے ۔ حالانکہ ایم ایم ہاشم بھی تقریر زور دار کرتے، لیکن اویسی صاحب کی تقریر میں اچھا مواد ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے مسائل سے وہ واقف تھے۔
جہاں عوامی بھلائی کی بات ہوتی اور اختلافات بھول کر سامنے آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ پرانے شہر میں شنکر جی کی یاد میں ایک پاسپیٹل کے قیام کے لئے ایک زمین کی نشاندہی کی گئی تھی۔ لیکن وہاں لاری والوں نے قبضہ کررکھا تھا۔ اس معاملے میں جب اویسی صاحب سے مدد مانگی گئی تو انہوں نے خود وہاں پہنچ کر وہ جگہ خالی کروائی اور کہا کہ یہ ہاسپیٹل عوام کے لئے بن رہا ہے۔ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ معاملہ بعد میں عدالتی مقدموں کی نظر ہو گیا اور اب بھی ہاسپیٹل کرایہ کی عمارت میں ہی چل رہا ہے۔
جب بم پھینکے گئے:
1970 ء کی بات ہے کہ پردیش کانگریس کے صدر گرو مورتی کی اچانک موت ہوگئی اور ان کی جگہ دوسرے صدر کا انتخاب کرنا تھا۔ اندراجی چاہتی تھیں کہ صدر کوئی نوجوان ہو‘ جس کے بارے میں لوگوں کی اچھی رائے ہو۔ میں ان دنوں انڈوسوویت فرینڈشپ سوسائٹی کا صدر تھا اور کئی بارایشیاء ولایت وغیرہ کے دور ے کرچکا تھا۔ ہر بار غیر ملکی دورے پر جانے سے پہلے اندراجی سے ضرور ملتا تھا۔ جب پردیش کانگریس کی صدارت کے لئے نام گئے تو مرانام بھیجے سرفہرست تھا۔ انہوں نے نام دیکھتے ہی کہا’ یہ انڈوسویت والا۔ اسی کو بنادو۔ اس وقت میری عمر ایک کم چالیس تھی۔ یہ وہی وقت تھا جب جئے آندھرا تحریک شروع ہو چکی تھی۔ کچھ لوگوں نے میرے نام کی مخالفت کی مگر اس کے باوجود اندراجی نے ٹھوس فیصلہ سنا دیا اور جب الیکشن کرایا گیا تو مخالف میں کوئی کھڑا نہیں تھا۔ طلباء کو میرا صدر بنایا جانا قطعی پسند نہیں تھا۔تلنگانہ پر اندرگاندھی کا موقوف اٹل تھا۔ تلنگانہ پرناانصافیاں تو بہت ہوئی تھیں۔ اس کی رپورٹ بھی میں اسمبلی میں کئی بار پیش کر چکا تھا۔ لیکن اندراجی نے کہا تھا کہ وہ ریاست کا بٹوارا نہیں چاہتیں۔ ان کی بات مان لینی پڑی تھی۔ ایل بی اسٹیڈیم میں ٹی پی ایس کی ایک میٹنگ چل رہی تھی۔ میں اور ایم ایل اے گڈنا ٹینس میدان کے پاس کھڑے ہو کر تقریر سن رہے تھے۔ اسی دوران کچھ لوگوں نے ہم پر بم پھینکے۔ خوش قسمتی تھی کہ ان کا نشانہ چوک گیااور ہم جلدی ہی اپنی کار میں جابیٹھے ۔ وہاں کچھ بم آگر، لیکن ہم وہاں سے محفوظ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس سے کچھ ہی دیر بعد میں نے اندراجی سے فون پر یہ سوچ کر بات کی کہ وہ کچھ ہمدردی جتائیں گی۔ لیکن انہوں نے کہا ’’تم موت سے ڈرتے ہو‘‘ ؟ اس وقت مجھے بولنا پڑا کہ میں موت سے نہیں ڈرتا اور کچھ بول بھی نہیں سکتا تھا۔ انہوں نے سمجھایا کہ اگر ہمارے بزرگ بھی اسی طرح موت سے ڈرتے تو پھر آزادی کہاں سے ملتی ۔
وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ خدمت اورقربانی کا جذبہ نفع اور نقصان میں تبدل ہو گیا۔ آج انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے سے پہلے امیدوار کو ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے بھی لاکھوں روپئے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ پہلے ایم ایل اے کے انتخاب میں بمشکل 17سے 20ہزار خرچ ہوتے تھے۔ اب اس کے لئے ایک کروڑروپئے سے بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ اب جب وہ اتنا پیسہ خرچ کرے گاتو کمائے گا بھی ضرور۔
اب تو کامیاب نمائندہ وہی سمجھا جاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ کمائے۔ پیسہ پھینکنے میں ماہر ہو۔ حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ ووٹر بھی اسی کو ووٹ ڈالنے کے لئے تیار ہے جو شراب پلائے گا اور وعدے کریگا۔ جذبہ خدمت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ یہ سب تو ہوگا ہی جب ٹکٹ اس کی جذبے اور شہرت کی بنیاد پر نہیں پیسے کی بنیادپر دیا جائے۔
میں تو کہتا ہوں کہ کمانا اس کی مجبوری ہوگئی ہے۔ اس کو اپنا رتبہ بھی قائم رکھنا ہے۔ 1962 ء میں جب میں ایم ایل اے بنا تھا تو ماہانہ تنخواہ 250روپئے ہوا کرتی تھی۔ اب تو سب ملا کر لاکھ روپیہ سے زیادہ ملتے ہیں۔ یہ تو جائز ہے لیکن ایمانداری نہ ہو تو یہ کافی نہیں ہوتے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ اس سسٹم کو سدھار نے کی ذمہ داری جن پر ہے وہ خود ہی بگڑے ہوئے ہیں۔ ذمہ داری سنبھالنے والوں کا اگر امتحان لیا جائے تو ان کو 25فیصد نشانات بھی نہیں ملیں گے۔
ماحول کے بدلنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پہلے عزت کا معیار پیسہ نہیں ہوتا تھا بلکہ پیسہ کمانے کا ذریعہ ہوتا ۔ بدمعاش اور لٹیروں کے پاس بھی پیسہ اور دولت ہوتی تھی، لیکن ان کی عزت نہیں ہوتی تھی ان کو بدمعاش ہی سمجھا جاتا تھا۔ ان کو حقارت کی نظر سے ہی دیکھا جاتا تھا۔ اب حالت بالکل برعکس ہے، اب انہیں لوگوں کی عزت ہوتی ہے ۔جن کے پاس دولت ہے۔ میری زندگی میں اس طرح روپئے کمانے کے لئے کئی راستے آئے ،لیکن میرے اقدار نے اس کی اجازت نہیں دی اور میں بنگلے میں نہیں رہ سکا۔ بلکہ فلیٹ پر اکتفا کرلیا۔
گنگاجمنی تہذیب:
جب شنکر جی کی یاد میں ایک میموریل سوسائٹی قائم ہوئی تو مجھے اس کا صدر بنایا گیا۔ وہ حیدرآباد کی ملی جلی تہذیب کے نمائندہ تھے۔ اردو سے ان کو بہت محبت تھی۔ ہندوؤں پر اس تہذیب کا اثر رہا۔ کھانے پینے کی عادتیں ، شادی بیاہ کے رسوم ،حتیٰ کہ کسی کے انتقال پر پرسہ دینے کی تہذیب بھی ان میں یہیں سے آئی تھی۔ لیکن جمہوریت کے بعد سیاست میں گھس آئی فرقہ واریت نے وہ سب کچھ چھین لیا۔ نظام کے دور میں جو ہم آہنگی تھی، وہ بھی ختم ہوگئی۔ کچھ لوگوں نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے ہندو مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کی سازش کی اور اس طرح ماحول بگڑ گیا۔ جو لوگ مسلمانوں کے پاکستانی ہونے کی بات کرتے ہیں یا نظام پر الزام لگاتے ہیں تو انہیں سوچنا چاہئے کہ نظام نے کبھی پاکستان کے حمایت نہیں کی اور نہ وہ پاکستان گئے بلکہ یہیں رہے۔ شنکر جی مشاعروں کے انعقاد کے دوران بھی ہمیشہ یہ کہتا رہا ہے کہ مشاعرہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھنا چاہئے اور ایسا کبھی ہوا بھی نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے نرمل میں رہنے کے دوران کئی مشاعرے ہوئے تھے اور میں شوق سے ان میں شامل ہوتا۔
آدھے کر سچن آدھے مسلمان:
ایک واقعہ مجھے یاد آتا ہے کہ عدالت میں اس وقت زیادہ تر اردو میں ہی بحث ہوتی تھی میں نے دی گریٹ پرافٹ اور کراسٹ دونوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا تھا۔ ایک بار عدالت میں ڈسٹرکٹ جج گویندراؤ نے پوچھا کہ تم نے کبھی گیتا بھی پڑھی ہے‘ تو میں نے نفی میں جواب دیا۔ انہوں نے کہا تم آدھے مسلمانوں اور آدھے کرسچن ہو۔

السلام علیکم ف م سلیم صاحب آپکا یہ مضمون پسند آیا. کاش ملک کا وہ غیر متعصبانہ ماحول برقرار رہتا.
ReplyDeleteشکریہ
ReplyDelete