دکن ریڈیو سے آل انڈیا ریڈیو تک ... منظور الامین کی یادوں کا سفر
ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے میدان میں ملک میں اپنے دور کی سب سے فعال شخصیت منظور الامین نہیں رہے۔ جیسے ان کے ساتھ ایک دور ختم ہو گیا۔ انہوں نے دکن ریڈیو حیدرآباد کے ٹاک پروڈیوسر سے اپنی عملی زندگی کی شروعات کی تھی اور ڈائرکٹر جنرل دوردرشن کے عہدے تک پہنچے۔ آل انڈیا ریڈیو پراردوسرویس شروع کرنے کا سہرا انہیں کے سر جاتا ہے۔ وہ جہاں رہے اردو کی ترقی کے لئے کوشاں رہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے علاوہ ادب ، شاعری اور تدریس میں بھی ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ عمر، ان کے جذبے میں کبھی رکاوٹ نہیں رہی۔طویل عمری کے باوجود مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ان کی گراں قدر تدریسی خدمات حیرت انگیز اورقابل قدر ہیں۔جسے مانو کی تاریخ کبھی نہیں بھلا سکتی۔ میں نے دسمبر 2006 میں ان کے ساتھ طویل انٹریو کیا تھا۔ جو 17دسمبر 2006 کو اعتماد کے کالم میری یادیں، میری باتیں میں شائع ہوا تھا۔ اور بعد میں میری کتاب یادوں کے سائے باتوں کے اجالے میں بھی اس کو شامل کیا گیا۔ قرئین تک پہنچانے کے لئے اسے یہاں منظورالامین ہی کی زبانی پیش کر رہا ہوں۔
.............................................................................
میری پیدائش 14جنوری 1926 ء کو مہاراشٹرا کے شہرا مراوتی میں ہوئی۔ جو اس وقت برار کا صدرالمقام تھا۔ اور ریاست حیدرآباد کا حصہ تھا۔ نظام کی طرف سے بہت مرعات تھیں۔ مثلاً حضور نظام کی سالگرہ منائی جاتی تو مٹھائیاں تقسیم ہوتیں۔ انگریزی ڈپٹی کمشنر اس دن خود نظام کا پرچم اور یونین چیک دونوں لہراتے۔ انگریزکلکٹرکو نظام کے پرچم کو سلام کرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے۔ میرے اجداد کا تعلق گولکنڈہ سے تھا والد بسم اللہ خاں ٹیچر ٹریننگ اسکول میں پرنسپال تھے۔ میرا بچپن زیادہ ترمس ڈبرو کے ساتھ گزرا۔ وہی ہمیں کھلاتی تھیں۔
میری پیدائش 14جنوری 1926 ء کو مہاراشٹرا کے شہرا مراوتی میں ہوئی۔ جو اس وقت برار کا صدرالمقام تھا۔ اور ریاست حیدرآباد کا حصہ تھا۔ نظام کی طرف سے بہت مرعات تھیں۔ مثلاً حضور نظام کی سالگرہ منائی جاتی تو مٹھائیاں تقسیم ہوتیں۔ انگریزی ڈپٹی کمشنر اس دن خود نظام کا پرچم اور یونین چیک دونوں لہراتے۔ انگریزکلکٹرکو نظام کے پرچم کو سلام کرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے۔ میرے اجداد کا تعلق گولکنڈہ سے تھا والد بسم اللہ خاں ٹیچر ٹریننگ اسکول میں پرنسپال تھے۔ میرا بچپن زیادہ ترمس ڈبرو کے ساتھ گزرا۔ وہی ہمیں کھلاتی تھیں۔
مان گئے نانا:
تعلیم کے لئے انتظامات تو تھے لیکن لڑکیوں کے لئے الگ سے کوئی اسکول نہیں تھا۔ اس لئے لڑکیوں کی تعلیم آگے بڑھ نہیں پاتی تھی۔ ایک دن خاتون انگریز انسپکٹر نے نانا سے کہا’’ آپ کی دونوں لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ یہاں لڑکیوں کے لئے الگ سے ایک گورنمنٹ اسکول کھولا جائے ۔ اور آپ کی لڑکیوں کو اس میں پڑھائیں‘‘۔ نانا کو شاید تصور میں بھی نہیں تھا کہ ان کی لڑکیاں نوکری کریں گی۔ انہوں نے ان دو انگریزخاتون انسپکٹروں سے کہا کہ یہاں تو ہندوعورتیں بھی نوکری نہیں کرتیں ‘پھر ان کی لڑکیاں کیسے نوکری کریں گی اور وہ جس دروازے سے آئی تھیں۔ انہیں اسی دروازے سے لوٹادیا۔ کچھ دن ایسے ہی گزر گئے۔ نانا کی عبدالقادر وکیل صاحب سے دوستی تھی۔ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ وہی دو انگریزعورتیں آرہی ہیں انہوں نے سمجھ لیا کہ پھر سے وہی تجویز لے کر آئی ہیں۔ بات چیت کے دوران ناناراضی ہوگئے اور پھر والدہ ہیڈ مسٹریس بنادی گئیں۔ وکیل عبدالقادر صاحب کی لڑکی رانی بعد میں آل انڈیا ریڈیو کی نیوز ریڈربنیں۔ یہ 1932 ء کی بات ہے وہ دونوں انسپکٹر اکثر مجھے اپنی کار میں بٹھا کر سارا شہر گھماتی تھیں اور انگریزی سکھاتی تھیں۔ یوں تو میری تعلیم کاآغاز مراٹھی سے ہوا لیکن بعد میں اردو ذریعہ تعلیم کے محمڈن اسکول میں داخل کیا گیا۔ مسلمانوں کا دبدبہ تھا۔ اب وہ اسکول مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ کنگ ایڈورڈ کالج سے انٹرمیڈیٹ کامیاب کرنے کے بعد میں نے ناگپور یونیورسٹی سے بی اے میں داخلہ لیا اور وہیں سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ مجھے گولڈ میڈل دیا گیاتھا اور تقریب میں سردار پٹیل مہمان خصوصی تھے۔ ناگپور میں آزادی کے بعد کا ماحول تھا۔ مجھے آج بھی وہ لفظ یاد ہیں سردار پٹیل بیمار تھے اور اسی حالت میں وہ وہاں آئے تھے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے انگریزی میں کہا تھا ’’میں آپ کو نڈرتا کا انجکشن دینا چاہتا ہوں، میں آپ کی آنکھوں میں وہ غصہ نہیں دیکھ پاتا ہوں ، جو نا انصافی کے خلاف ہونا چاہئے‘‘۔اسی یونیورسٹی سے میں نے ایل ایل بی کی تعلیم مکمل کی اور پھر انڈین ٹوریل فورس کی ٹریننگ بھی حاصل کی۔
اعوذ باللہ خاں:
اسکول کے زمانے میں ہم گاندھی جی کا نام بہت سنتے تھے ۔ وہ جب بھی سیواگرام آتے ابا جان اِن سے ملاقات کرنے چلے جاتے تھے۔ ایک باروہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ جاتے ہی انہوں نے آداب کے جواب میں الٹے ہاتھ تین انگلیاں سیلوٹ کے انداز میں اٹھائیں۔ وہ اس طرح سیلوٹ کرتے تھے ۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے پوچھا ’’یہ کون ہے ؟‘‘ ابا جان نے جواباً کہا ’’یہ میرا بیٹا ہے ‘‘ ۔ نام پوچھنے پر انہوں نے میرا نام منظور الامان خاں بتایا۔ گاندھی نے اسی وقت کہا اس کا نام بدل دو۔ اس کا نام تو اعوذ باللہ خان ہونا چاہئے ‘‘۔ اور پھر مسکراتے ہوئے چپ ہوگئے۔
کچھ سال بعد جب میں کالج میں داخل ہوا تو آزادی کی لہر تیز ہوگئی تھی۔ کامرس کالج گراؤنڈ وردھا میں ایک خاص میٹنگ تھی۔ یہ 1947 ء کی بات ہے۔ گاندھی جی ، نہرو، خاں عبدالغفار خاں کپیلش آچاریہ اس میٹنگ میں شامل تھے ۔ اس میں آزادی کا فیصلہ لیا جانے والا تھا۔ ہم دس بارہ نوجوانوں نے سوچا کہ گاندھی جی سے ملنا چاہئے اور کولکتہ میل سے وردھا روانہ ہوگئے۔ ناگپور میں انگریز اسٹیشن ماسٹر تھا اس نے وردھا کے اسٹیشن پر اطلاع دی کہ کچھ نوجوان بغیر ٹکٹ سفر کر رہے ہیں۔ جب ہم سے ٹی ٹی نے ٹکٹ کے بارے میں پوچھا تو میں نے انگریزی میں کہا’’ ہم آزادی کا ٹکٹ رکھتے ہیں۔ ریلوے کا نہیں ‘‘۔ ہمیں تقریباً 15نوجوانوں کو جیل میں ڈال دیاگیا۔ لیکن کچھ دیر کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ وہاں سے ہم کامرس کالج گراؤنڈ پہنچ گئے۔ ہم کو اس میٹنگ کی سنجیدگی کا علم نہیں تھا۔ ہم لوگ باہر کھڑے ہو کر گاندھی جی زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ بڑی دیر تک چلانے کے باوجود وہ باہر نہیں آئے۔ تو کسی نے پتھر مارکر بلڈنگ کا شیشہ پھوڑ دیا۔ پھر وہ باہر آئے اور پوچھا کیا چاہتے ہو؟ ہم میں سے کسی نے کہا کہ آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بندر کی طرح دونوں ہاتھ اپنے چہرے سے لگائے اور کہا ’’دیکھ لو میرا تھوپڑا‘‘۔ پھر انہوں نے شیشہ پھوڑنے والے کے بارے میں پوچھا۔ کسی نے کچھ نہیں کہا۔ وہ ہندی صحیح نہیں بول پاتے تھے۔ ان کے تلفظ پر گجراتی کا اثر تھا۔ انہوں نے ہم سب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا’’دیکھو میں تم کو بولنا چاہتا ہوں۔ اب ہمارے دیش کو آزادی ملنے والی ہے۔ اب تم لوگ باگ ڈور سنبھالوگے ۔ لیکن ایسے نہیں یہ شیشہ کس نے توڑا۔ انشان کو انشان بننا چاہئے۔‘‘
عزیز حامد مدنی:
عزیز حامد مدنی ایم اے کے دوران میرے ساتھ تھے۔ ان کی غزل سارے پاکستان میں شہرت پاگئی تھی۔ ہم لوگ ایک ہی کمرے میں رہتے تھے۔امتحان ختم ہونے کے بعد وہ رائے پورچلے گئے۔ بعد میں انہوں نے ایک پوسٹ کارڈ لکھا کہ وہ پاکستان جارہے ہیں اور میں سوٹ کیس لے کر ان کے ساتھ چلوں۔ لیکن میں نے یہاں رہنے کا فیصلہ لیا۔ ان کی ٹرین 2بجے رات ناگپور پہنچی تھی۔ ریلوے اسٹیشن پر پہنچنا‘انہوں نے اصرار کیا کیونکہ اس وقت قائد اعظم کراچی میں تھے ۔ اور عزیز کے بھائی ان کے سکریٹری تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ میرا پاکستان جانے کا ارادہ نہیں ہے تو انہوں نے ایک شعر کہا
وہ لوگ جن سے تیری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تیری بزم خیال سے بھی گئے
میں نے ان سے خواہش کی کہ وہ پوری غزل لکھیں۔ اور پھر 1962 ء میں ایک دن کٹاٹ پیالس میں ایک کتابوں کی دکان پر اردو رسالہ نقوش کے صفحات پلٹ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ پوری غزل میرے نام سے چھپی تھی۔
فراق سے بھی گئے وصال سے بھی گئے
سبک ہوئے ہیں تو عیش و ملال سے بھی گئے
اسی نگاہ کی نرمی سے ڈگمگائے قدم
اسی نگاہ کے تیور سنبھالے بھی گئے
ہم ایسے کون تھے لیکن قفس کی یہ دنیا
کہ پرشکستوں میں اپنی مثال سے بھی گئے
چراغ بزم ابھی جان انجمن نہ بجھا
جو یہ بجھا تو تیرے خدوخال سے بھی گئے
تقریباً 37سال بعد ان سے دہلی میں ملاقات ہوئی۔ اس وقت وہ حبیب تنویر کے پاس ٹہرے تھے جوان کے بڑے اچھے دوست تھے۔ اسی وقت میں ڈائرکٹر آف فارن براڈ کا سٹنگ تھا۔
دکن ریڈیو:
تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک اسکول میں تدریسی کی خدمات انجام دے رہا تھا۔ انہی دنوں ٹائمس آف انڈیا میں ایک اشتہار شائع ہوا تھا۔ دکن ریڈیو کو ٹاکس پروڈیوسر کی ضرورت تھی۔ میں اس کے لئے قابلیت پر پورا اترتا تھا۔ انٹرویو کے لئے بلایا گیا۔ ایک گھنٹے تک انٹرویو کے بعد مجھے منتخب کر لیا گیا۔ 1949 ء کی بات تھی حیدرآباد انڈین یونین میں شامل کرلیا گیا تھا ‘لیکن ریڈیو کا نام ابھی بدلا نہیں گیا تھا۔
میرے یہاں آنے کے بعد ہندی سروس شروع کی گئی۔ اس وقت زیادہ تر تعلیمی پروگرام ہوئے تھے۔ ملی جلی تہذیب تھی۔ ہندوستان کے دستور کی بات ہوتی تھی۔ بنیادی حقوق کی بات ہوتی تھی۔ 1948 ء سے پہلے چوں کہ دکن ریڈیو(آصف جاہی ریاست) مملکت محروسہ کارعالی کہلاتاتھا اور ریاست تک کے لئے ہی محدود تھا۔ اس لئے اس کے پروگرام بھی زیادہ تر اس مقصد سے ہوتے تھے‘ لیکن بعد میں ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی بھی بات ہونے لگی۔ چونکہ نام کے ساتھ مسلمانوں کی جذباتی لگاؤ تھا اس لئے اس کو بہت سالوں تک بدلا نہیں گیا۔ مانا کہ تلگووالے اس کو آکاش وانی اور مراٹھی سروس میں اس کو نبھونی کہنے لگے تھے لیکن اردو اور انگریزی سروس پر دکن ریڈیو ہی کہلاتا تھا۔ اُردو کا کافی چلن تھا۔ فائلوں پر نوٹنگ اردو میں ہی ہوتی تھی۔ انگریزی کے پروگراموں کے ٹیپ پر بھی اُردو میں لکھا جاتا تھا۔1955 ء تک آڈٹ بھی اردو میں ہوتی رہی۔ اور آخری پروگرام کے بعد نواب عثمان علی خاں کا ایک شعر نشر ہوتا جس کو ایک گلوکار ایف رؤف نے گایا تھا۔
تاابد خالق عالم یہ ریاست رکھے
تجھ کو عثمان بصد اجلاس سلامت رکھے
مسلمانوں کی نفسیات یہ تھی کہ شعر سن کر خوش ہوجاتے تھے۔ 1954 ء میں اس کو آل انڈیا ریڈیو کا نام دیا گیا۔ 1955 ء میں میرا تبادلہ دہلی کیا گیا۔ پروگرام اگزیکٹیو بنایا گیا۔ پرانی دہلی میں ، میں نے ایک کمرہ کرائے پر لے لیا۔ لیکن کمرہ اور وہاں کا علاقہ کافی گندہ تھا۔ تقریباً ایک مہینے تک وہاں رہا۔ ایک دن نارتھ ریونیو میں راشٹرپتی بھون کے پاس پیدل جارہا تھاکہ ایک مکان کے لان میں کندا سوامی ایم پی بیٹھے نظر آئے۔ میں نے ان کے پاس پہنچ کر سلام کیا۔ میرے سلام کے انداز کو دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا’’ حیدرآبادی ہو! آؤ بیٹھو ، کہاں جارہے ہو؟
میں نے جھٹ سے کہا کہ آپ سے ہی ملنے آیا ہوں اور ان کے یہ پوچھنے پر کہ کہاں رہتے ہو؟ میں نے جھٹ ہاتھ کی جانب اشارہ کیا۔ وہ پہلے تو مسکرائے اور یہ جان کر میں ریڈیو کام کرتا ہوں، تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ یہیں آکر رہ جاؤ۔ ا س طرح دہلی میں اللہ نے مری مدد کی۔ یہ بنگلہ میرے دفتر کے بالکل سامنے تھا۔ شادی کے بعد میں اس بنگلے میں اوپر کے کمروں میں رہا۔ ان دنوں دہلی میں پنجابی رفیوجیوں کا بڑا دبدبہ تھا اور دہلی کا ماحول آزادی کے بعد کافی بدل گیا تھا۔
آل انڈیا ریڈیو کی اردوسروس کاآغاز:
دہلی میں تبادلہ ہونے کے بعد میرے لئے سب سے بڑی کامیابی اردوسروس کا آغاز تھا۔ یہ 1985 ء کی بات ہے۔ میرے باس ملک صاحب نان مسلم تھے۔ ان دنوں پاکستان میں ہندوستان کے بارے میں کافی کچھ بولا جارہا تھا۔ اردو سروس کے انعقاد کا پہلا پروگرام مجھے پیش کرنا تھا‘ میں نے مرزا غالب اور لتا منگیشکر کے ناموں کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان اور اردو کی عظمت کے بارے میں کچھ کہا اور پھر پاکستان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے غالب کا وہ شعر کہا
ہراک بات پہ کہتے ہو کہ تو کیاہے
تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
پروگرام ہوئے آدھے گھنٹے بعد چپراسی نے آکر کہا ملک صاحب بلا رہے ہیں۔ میں نے سمجھا کہ نوکری گئی۔ انہوں نے کہا اچھا تو آپ ہیں منظور الامین اور پھر کہا یہی معیار برقرار رکھئے۔ وہ بڑے دبدبے والے شخص تھے۔
BEEP-BEEP
1957 ء میں میرا تبادلہ بمبئی ہوگیا۔ یہاں پر 3اکتوبر کووودھ بھارتی سروس شروع کرنی تھی۔ جس دن سروس شروع ہوئی اسی دن میں نے بی بی سی پر خبر سنی کہ رشیا نے پہلامیان میڈ (MANMAID)سٹیلائٹ بنایا ہے اور وہ چار اکتوبر کو ہندوستان پر سے گزرے گا۔ بمبئی کے اوپر سے وہ شام 6:45بجے گزرے گا اور اس کے گزرتے وقت BEEP-BEEPآواز آئے گی۔ میرے لئے یہ بات بالکل نئی تھی۔ اس معاملے میں میں نے ایک فزکس کے پروفیسر سے ملاقات کی اور اس کی تفصیل حاصل کی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس کی آواز ریکارڈ کی جائے اور پھر وہ آواز ریکارڈ کی گئی۔ 5اکتوبر کو 11بجے ایک گھنٹے کا پروگرام پیش کیا گیا۔ جو ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں اپنی طرز کا منفرد پروگرام تھا۔ BEEPکی آواز چھ بار سنائی گئی پھروہاں سے دہلی میرا تبادلہ ہوگیا۔ 1962 ء میں ‘ میں نے یوپی ایس سی کا امتحان لکھا وہ ٹیلی ویژن سروس کے لئے اسسٹنٹ اسٹیشن ڈائرکٹر کا عہدہ تھا۔ یہ سارے ملک میں ایک ہی عہدہ تھا۔ جس پر اللہ کے کرم سے میرا تقرر کرلیا گیا۔
لکھنو اور سیاست:
دہلی میں جب میں ڈائرکٹر سٹیلائٹ کے عہدے پر کام کر رہا تھا مرکزی وزیر نشریات و دیا چرن شکلا نے ایک شام مجھے بلایا اور کہا کہ لکھنو ٹیلی ویژن سنٹر قائم کرنے کے لئے لکھنو جانا ہے اور 11بجے وہاں رہنا ہے۔ اور رات 9بجے ٹرین ہے۔ یہ میرے لئے عجیب حکم تھا ۔میں نے ان سے کہا کہ اتنا کم وقت ‘ میرے پاس نہ تو پیسہ ہے اور نہ میں نے ٹکٹ بک کرایا ہے۔ ابھی تو میں نے کھانا بھی نہیں کھایا۔ یہ کہنے کے باوجود انہوں نے انگریزی میں حکم دیا۔ بھیک مانگو‘ کسی سے ادھارلو یا چوری کرو۔ تمہیں کسی حال میں کل لکھنو میں رہنا ہے ۔ ایک اور حکم ہے ۔ تم لکھنو جاکر چیف منسٹر ہیم وتی نندن بہوگنا سے نہیں ملوگے۔ یہ میرے لئے عجیب دھرم سنکٹ تھا۔ جب کوئی بھی ڈائرکٹر کسی ریاست کے صدر مقام پر جاتا تو چیف منسٹر اور گورنر سے ملنا ضروری تھا۔ لیکن یہاں مرکزی وزیر کا حکم تھا۔ میں نے وہاں جاتے ہی کام شروع کیا۔ میں نے ان دنوں ایک نئی کار خریدی تھی اور وہی میرا موبائیل مکان تھااور رات میں اس میں سوتا تھا۔ ٹیلی ویژن سنٹر کے افتتاح کی تیاریاں مکمل ہوگئی تھیں۔ میرے لئے مشکل یہ تھی کہ بہوگنا سے میری دوستی تھی۔ ان سے نہ ملنا میرے لئے عجیب سا لگ رہا تھا۔ چترویدی ہمارے مشترکہ دوست تھے۔ وہ ایک دن آئے اور کہا کہ چیف منسٹر ڈائرکٹر سے نہیں بلکہ ہیم وتی نند بہو گنا‘ منظورالامین سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے اسی دوران ہندی کے مشہور ناول نگار بھگوتی چرن ورما سے ملاقات کی۔ سیاسی حلقوں میں ان کا بہت دبدبہ تھا۔ میں نے ان سے پوچھا’’بابوجی میں دھرم سنکٹ میں پڑ گیا ہوں‘ کیا کروں۔انہوں نے کافی پلانے کے بعد کہا کہ آٹھ دن انتظار کرو اور پھر ایک دن کافی پینے چلے آؤ‘‘۔ میں نے آٹھ دن انتظار کیا اور آٹھویں دن صبح خبر تھی کہ بہوگنا حکومت کو اندراگاندھی نے برطرف کردیا ہے۔ اسی دن میں نے بھگوتی چرن ورما کو فون کیاتو انہوں نے کہا کہ اب آپ اپنے دوست سے مل سکتے ہیں۔ اب وہ چیف منسٹر نہیں ہیں۔
صرف 15منٹ میں:
لکھنو میں جیسے ہی صدر راج نافذ ہوگیا تھا ساری ذمہ داریاں گورنر چنا ریڈی پرآگئی تھیں۔ ان سے میری ملاقات حیدرآباد میں رہی تھی۔ میں نے لکھنو میں رہنے کے لیے مکان کے بارے میں جب چیف سکریٹری سے بات کی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ یہاں ہماری ریاست کے افسروں کے لئے ہی بنگلے نہیں ہیں تم کو تو کہاں سے دیں۔ کچھ دنوں بعد میں نے گورنر ہاوزفون کیا۔ نام بتانے کے بعد چنا ریڈی خود لائن پرآئے اور انہوں نے کہا کہ وہ گاڑی بھیج رہے ہیں؟ میں نے کہا میرے پاس گاڑی ہے۔ میں آجاؤں گا۔ گھر پہنچے پر انہوں نے اسی وقت ایک افسر کو بلایا اور کہا اب دو بج رہے ہیں اور 2بج کر 45منٹ تک دلکشا کالونی میں ایک کوٹھی ۔ چابی کے ساتھ ان کو مل جانی چاہئے۔ عہدیدار کچھ کہہ رہا تھا کہ انہوں نے انگریزی میں گالی دی بمشکل 15منٹ میں بنگلے کی چابیاں میرے ہاتھ میں تھیں۔ یہاں بھی خدامہربان رہا۔ لیکن جیسے ہی اندراگاندھی الکشن میں بار گئیں اور جنتا پارٹی حکومت نے میرا وہاں سے تبادلہ کرادیا کیوں کہ مرکز میں اڈوانی نشریات کے منسٹر تھے اور وہ میرے نام سے ہی چڑتے تھے۔ لکھنو‘ سے اندراگاندھی اور سنجے گاندھی کی کافی تشہیر کی گئی تھی۔ ایک دن وہ مدراس کے دورے پر تھے۔ انہیں یہ پتہ چلا کہ ڈائرکٹر نے ایک کیمرے کا استعمال کئے بغیر اس کے خرچ کے طورپر حکومت سے ایک لاکھ روپیہ حاصل کئے ہیں۔
انہوں نے اسی وقت ڈائرکٹر جنرل سے پوچھا کہ کیا ٹیلی ویژن کے لئے الگ سے فینانس کے کوئی قوانین ہیں۔ اس وقت تک ٹیلی ویژن کے لئے بھی ریڈیو کے قوانین ہی چلے آرہے تھے۔ انہوں نے ڈائرکٹر جنرل سے کہا کہ وہ نئے قوانین بنائیں۔ اس کے لئے میرا تقرر کیا گیا اور جب قوانین بنے تواڈوانی نے اس کو بہت پسند کیا اور میرے تعلق سے انہیں جو چڑتھی وہ ختم ہوگئی اور انہوںے مجھے ترقی دے کر ڈپٹی ڈائرکٹر بنادیا۔
میں نے دہلی ‘ حیدرآباد اور بمبئی کے علاوہ لکھنو میں اپنی خدمات انجام دیں۔ دہلی کی تہذیب بالکل الگ تھی۔ بمبئی پوری طرح کمرشیل شہر ہے۔ جہاں پیسہ خدا ہے۔ لکھنواور حیدرآباد زبان اور تہذیب کے معاملے میں کچھ حد تک یکساں ہیں۔ جہاں کچھ ادب اور آداب موجود ہیں۔ بزرگوں کی تعظیم ہے۔ لکھنو کے بارے میں کبھی تلسی داس نے کہا تھا۔
رگھوریت یہی چلی آئی
جان جائے پروچن نہ جائی
قول و قرار کا پاس ولحاظ تھا۔ اب بھی ان دونوں شہروں میں کچھ اقدار باقی ہیں۔ زبان کے معاملے میں‘ لکھنو اور حیدرآباد میں فرق ہے۔ وہاں بہت شستہ اور فصیح زبان بولی جاتی ہے۔ لفظ کی ادائیگی کافی اہمیت رکھتی ہے۔ لکھنو کے بارے میں کسی نے کہا تھا۔
خدا آباد رکھے لکھنو، پھر غنیمت ہے
نظر کوئی نہ کوئی اچھی صورت آہی جاتی ہے
وہاں ایک محفل میں جب قائم چاند پوری کا شعر سنا کر دکنی زبان کو لچر کہا گیا تو میں نے ان کے باپ غالب اور ان کے دادا میر کی یاددلاتے ہوئے کہا
قائل نہیں ہم یوں ہی کچھ پریختہ گوئی کے
ارے معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
بیگم اختر:
بیگم اختر کے گھر اکثر جانا ہوتا تھا۔ ان کو میں آنٹی کہا کرتا تھا۔ ان کے شوہر بیرسٹر اشتیاق احمد عباس بھی بہت چاہتے تھے۔ ان کے گھر سیری آم کھانے کا الگ ہی مزہ تھا۔ ایک بار ان کے مسلسل سگریٹ نوشی پر میں نے دکھ کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا۔
نیک نامی کی حدیں ختم کہاں ہوتی ہیں
ابتداء کی ہے وہیں سے میری رسوائی نے
عباس صاحب نے کہا تھا کہ وہ (بیگم اختر) یوپی کے کسی بھی شہر میں کنسرٹ میں حصہ لیں گی۔ لیکن لکھنو میں نہیں۔
ریڈیو اور اردو
آزادی کے بعد مانا کہ قومی سطح پر ریڈیو پر اردو نے بڑا اہم مقام پایا۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیشہ مخاصمانہ رویہ رہا۔ دراصل جو ڈائرکٹرہے اس پر منحصرہوتا ہے کہ وہ کس طرح کی ذہنیت رکھتا ہے۔ میرا تقرر جب دھارواڑ اسٹیشن پر ہوا تو میں نے وہاں اردو سروس شروع کی جو آج بھی ہے۔ لکھنو میں اودھ پنچ کے نام سے اردو کی سروس شروع کی وہ بھی اب تک اسی نام سے چل رہی ہے۔ مسئلہ اردو والوں کا ہے۔ اردو والوں نے اس تعلق سے ہمیشہ لاپرواہی برتی ہے۔ کبھی بھی اس معاملے میں قومی سطح پر کوئی پر اثر نمائندگی نہیں ہوئی ہے۔ ورنہ جب لوگ پرائیوٹ ریڈیو و اور ٹی وی پر اردو کااستعمال کررہے ہیں تو اردواہم زبان ہونے کے باوجود سرکاری طورپر اس کو جو ترقی کرنی تھی وہ نہیں کرسکی۔ بس کچھ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے کچھ پروگرام بنائے گئے۔ بلکہ کئی بار تو اردو والوں کا استعمال اردو کی آواز دبانے کے لئے بھی ہوا۔ اب بھی ایک پر اثر آواز اردو کے لئے اٹھنی چاہئے کہوں کہ .....
یہ پگلی اب بھی خود کو شہزادی بتاتی ہے

Masha Allah....Yaadgar Interview saleem shb...mubarakbaad.
ReplyDeleteAllah...Manzoor ul Ameen shb marhoom ke darjaat buland farmae.....Aameen
ReplyDeleteنہایت عمدہ آرٹیکل ۔۔۔ مبارکباد قبول فرمائیں ۔۔۔۔
ReplyDelete