دنیا مٹھی میں کرنے کے باوجود آدمی مشکل میں ہے : وحید پاشا قادری
ایسا کیا تھا، جس نے آپ کو شاعری کی جانب راغب کیا؟
بچپن میں جب آنکھ کھلی تو شاعری کا ماحول تھا۔ والدصاحب
محمد عبدالقادر صاحب بیہوش محبوب نگری کےتخلص سے نعتیہ شاعری کرتے تھے۔ 1963 میں سرکاری تبادلے پر محبوب
نگر سے حیدرآباد آئے تو یہیں کے ہو گئے۔ انہیں کو دیکھتے ہوئے میں اور میرے بھائی
طیب پاشا قادری نے شاعری کو اپنایا۔بھائی بھی والد
صاحب کی طرح بہت اچھی نعتیہ شاعری
کرتے ہیں۔ میں بچپن سے ہی فلمی گیتوں کی پیروڈی کیا کرتا تھا۔
شاعری وراثت میں مل تو سکتی ہے، لیکن اس کے لیے فنی
صلاحیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے؟
آپ کی بات بالکل سہی ہے۔ دراصل والد صاحب نعتیہ شاعری کرتے تھے، لیکن میری طبیعت مزاح کی جانب کچھ ذیادہ مائل تھی ۔ میں اپنے دوست احباب کے درمیان بیٹھتا تو ہنسی مزاق کر لیا کرتا تھا۔ بھائی طیب پاشا نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ مزاحیہ شاعری کرنے والے بہت کم ہوتے جا رہے ہیں، اس میں کبھی کچھ کہ لیا کرو۔ خصوصاًانہوں نے میری پیروڈی کرنے کی عادت کی طرف اشارہ کیا تھا۔
شروع میں کن گیتوں کی پیروڈی آپنے کی؟
فلم اُپکار یاد ہوگی آپ کو۔ میرے دیش کی دھرتی ۔۔۔نغمے پر
بنی میری پیروڈی کو لوگوں نے بہت پسند کیا تھا ,۔۔۔۔ میرے دیش کی دھرتی، سو ناگلے، اگلے پالک
میتھی…۔۔۔۔ ایک اور گیت تھا، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیوں۔۔اس گیت پر میں نے کہا تھا،
کھا چکے ساری جنتا کا دھن ساتھیوں، اب تمہارے حوالے
وطن ساتھیوں۔
کچھ کچھ ہوتا ہے فلم کے گیت پر لکھی پیروڈی بھی
کافی پسند کی گئی تھی
وہ چائے لائے، مجھ کو پلائے،
نا جانے اس میں کیا کیا ملائے،
ہاتھ میں میرے پانی کا لوٹا ہے،
کیا کروں ہایے کچھ کچھ ہوتا ہے۔
راجہ ہندستانی فلم کے گیت پر بھی آپ پیروڈی سنایا کرتے تھے؟
ہا ں وہ بھی لوگوں کے پسند آئی تھی۔ بیرون ملک میں کام کر رہے اپنے شوہر کو بیگم
کیا کہنا چاہتی ہے، اس کا ذکر اس پیروڈی میں کیا گیا ہے۔
دیکھو جی دیکھو جی آنا نہیں،
دبئی چھوڑ کے، دبئی چھوڑ کے۔
پردیسی میرے یارا خوب کمانا،
پینا نہ کھانا مجھے پیسے بھجانا۔
روزانہ ہم سب ہوٹل کو جاتے ہیں
مرغے مسلم اور بریانی کھاتے ہیں۔
گھر میں جب بھی دال ہمارے بنتی ہے،
کیا بتلاؤں آپ بہت یاد آتے ہیں۔
پردیسی میرے یارا خود دال کھانا،
خود دال کھانا ہمیں مرغا کھلانا… پردیسی۔۔
دیکھو جی دیکھو جی آنا نہیں، دبئی چھوڑ کے، دبئی
چھوڑ کے۔
جب آپنے مشاعرے پڑھنے شروع کیے تھے تو کس طرح کا
ماحول تھا اور اب کیا تبدیلی آئی ہے؟
اس وقت سننے والے بہت اچھے تھے، کچھ کہنے میں شاعر کو
مزہ آتا تھا۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو پکڑ لیتے تھے۔ شاعر کا اپنا ایک معیار ہوتا تھا، وہ اپنے معیارپر کہتا تھا اور سامع اس سے مسحور ہوتے تھے، لیکن آج شاعر کو سامع کے معیار پر آکر بات کہنی پڑتی ہے۔
آج آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ شاعر کو سامع کے معیار پر اترنا پڑ رہا ہے؟
بہت سی وجوہات ہیں، سب سے پہلے تو اس زمانے میں تفریح کے لئے فلمیں اور شعر وشاعری کے علاوہ
بہت کم ذرائع تھے۔ مشاعرے بھی تفریح کا
اہم ذریعہ تھے۔ بڑی تعداد میں لوگ رات بھر مشاعرہ سنتے تھے۔ آج دنیا لوگوں کی مٹھی
میں آ گئی ہے۔ موبائل ان کے لئے سب کچھ بن گیا ہے اورموبائل کا جو اسٹینڈرڈ ہے،
لوگ اسی پر خوش ہیں۔
تو آپ کہنا چاہتے ہیں کہ موبائل نے انکا معیارگرا دیا ہے؟
نقصان تو ہوا ہے، موبائل کتابیں کھا گیا ہے اور تفریح کے بہت سارے ذرائع اس کی نذر ہو گئے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس کے دو
پہلو ہیں، اس سے کچھ لوگ جتنا چاہیئے، اتنا ہی لیتے ہیں، لیکن کچھ تو پوری طرح سے
اس کے قابو میں چلے گئے ہیں۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ حیدرآباد میں مزاحیہ شاعری کا
پہلے جیسا ماحول نہیں رہا؟
لکھنے والے تو کم ہو ہی گئے ہیں۔ دراصل مزاح کہنا ٹیڑھی
کھیر ہے۔ سنجیدہ شاعری آسانی سے کی جا سکتی ہے، لیکن ،مزاح کے لیے بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہ
حالت صرف حیدرآباد یا اردو کی نہیں ہے، سارے دیش میں اور تقریباً سبھی زبانوں میں یہی حال ہے۔
آج انسان کے پاس عیش وآرام کی بہت ساری چیزیں ہیں اور
جب چاہے وہ چیزیں گھر بیٹھے منگا سکتا ہے۔ ایسے میں آپ کو کیا لگتا ہے کہ آدمی کی
زندگی آسان ہو گئی ہے یا مشکل؟
میں کہتا ہوں،، مشکلیں بڑھتی جا رہی ہیں، جبکہ آدمی کو ایسا لگ رہا ہے کہ
زندگی آسان ہو رہی ہے۔ جب آدمی کی زندگی میں
مسائل یا مشکلیں نہیں رہینگی
بوریت
بڑھتی جائیگی، ، تو زندگی کا مزہ ہی کیا رہ جائیگا؟ حیدرابادی میں کہوں، تو آدمی
اَیدی ہوتا جا رہا ہے، جو اچھی بات نہیں
ہے۔……


Comments
Post a Comment