کبھی جب میں تمہیں سمجھ نہ پاؤں ....

دیکھنا میری عینک سے ...

پتہ ہے ! آج تم جب باتیں کر رہے تھے، تو مجھے لگ رہا تھا کہ وہ باتیں میرے کانوں تک تو پہنچ رہی تھیں، لیکن دماغ یا دل تک رسائی حاصل کرنے سے پہلے ہی کہیں غائب ہو جاتی تھیں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ تم نہیں ہو، تم تھے بھی نہیں، ہو بھی نہیں سکتے تھے۔ بھلا اس طرح بات کرنے والا وہ شخص جو میرے سامنے کھڑا تھا، وہ صرف تمہارے بھیس میں کوئی جسم کھڑا تھا اور اس میں محض بولنے کی طاقت تو تھی، لیکن ان سے منسلک جو دوسرا پہلو میرے پاس تھا، اس کو تم یا تمہارے بھیس میں کھڑا وہ شخص سمجھ نہیں رہا تھا۔ ... میں تمہیں بتانا چاہتا تھا کہ معاملہ ویسا نہیں تھا، جیسا تم سمجھ رہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ تم اس وقت مجھے سمجھنے کی حالت میں نہیں ہو۔ الجھنا بیکار تھا۔ میں نے دعا کی۔ غالب کی طرح ...
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
... میں سوچتا رہ گیا کہ غالب نے اس شعر کے دوسرے مصرے میں جو بات کہی ہے، وہ پہلے والے مصرے میں آئی نا امیدی اور مایوسی کے باوجود ایک آس، امید اور مثبت پہلو کے امکانات کو زندہ رکھنے کا اشارہ کرتی ہے۔ اس بات کے باوجود کی اپنی زبان کا استعمال کرکر کے ہار گئے، لیکن سامنے والے کو اگر سمجھنے کی طاقت مل جائے تو ہو سکتا ہے کہ ہماری ہار، جیت میں بدل جائے۔
... یہ ایک عجیب طرح کی صورتحال ہوتی ہے۔ شاید ہم میں سے بہت سے لوگ اس صورت حال سے گزر چکے ہوں گے، لیکن اکثر جب سامنے والا فریق، چاہے وہ ہمارا دوست ہو، بیٹے بیٹی ہو، بیوی ہو، والدین ہو، یا کوئی اور وہ جب ہماری موقف کو سمجھ نہیں پاتے تو ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ صورت حال کو سمجھ نہ پانے کی وجہ سے ہم سامنے والے سے کچھ اس طرح الجھ جاتے ہیں کہ بات سلجھنے کا نام ہی نہیں لیتی، لیکن ہم بات کو سمجھ جائیں تو ایک فریق کی طرف سے ہی صحیح بات الجھنے سے بچ جاتی ہے۔

پھر بھی ایک سوال بار بار ذہن میں آتا ہے۔غصے میں بچوں کو پیٹنے کے بعد، دوستوں سے لڑنے کے بعد، بیوی اور ماں کے درمیان کا مسئلہ اور الجھانے کے بعد (یہ جان کر بھی کہ یہ مسئلہ ان کے اپنے طور پرہی بہتر طریقے سے حل کیا سکتا ہے۔)، کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم بھی کبھی ویسی صورت حال میں ہو سکتے ہیں، جیسے آج سامنے والا ہے۔ آج کا یہ کالم میں ان والدین کے لئے وقف کرتا ہوں، جو اس فکر میں ڈوبے جا رہے ہیں کہ ان کے بچے انہیں سمجھ نہیں رهے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی ہے، پھر بھی... دکھ تو ہوتا ہے کہ وہ نہیں سمجھ رہے ہیں، لیکن اتنا سمجھ لینا ضروری ہے کہ وہ سمجھنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی موقع ایسا بھی ہو کہ بچے ہمیں کچھ سمجھانا چاہتے ہوں، لیکن ہم سمجھ نہیں پا رہے ہوں ... میں چاہوں گا کہ بچے اس دن ہماری پوزیشن کو ضرور سمجھ لیں گے کہ ماں باپ ان کی بات سمجھ نہیں پا رہے ہیں تو شاید ہو سکتا ہے، وہ اس صورت حال کے بارے میں بھی جان سکیں گے کہ ایسی صورت حال میں کبھی ان کے ماں باپ بھی تھے، جنہوں نے اپنے بچوں کی نامسجھی کو بھی خوشی سے قبول کر لیا تھا۔

Comments

Popular posts from this blog

دنیا مٹھی میں کرنے کے باوجود آدمی مشکل میں ہے : وحید پاشا قادری

ایک تہذیب کا سفر- پرنسس اندرا دھنراجگير کی یادوں میں بسا حیدرآباد

دکن ریڈیو سے آل انڈیا ریڈیو تک ... منظور الامین کی یادوں کا سفر