ایک تہذیب کا سفر- پرنسس اندرا دھنراجگير کی یادوں میں بسا حیدرآباد

راجكماری اندرا دھنراجگير حیدرآباد کے ایک مشہور جاگیردار اور ادب نواز راجہ دھنراجگير کی بیٹی ہیں۔ یہ گھرانا ان بہت کم خاندانوں میں سے ایک تھا، جو حیدرآباد کی آصف جاہی حکومت اور یہاں کے نوابوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ حیدرآباد میں پان باغ محل ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ اسی ماحول میں راجکماری نے ہوش سنبھالا۔ اپنے والد کے ساتھ رہتے ہوئے شاہی دربار اور نوابوں، جاگیر داروں کے خاندانوں سے ان کے اچھے تعلقات رہے۔ حیدرآباد سے انڈو - اینگلين شاعرہ کے طور پر بھی انہوں نے دنیا بھر میں اپنی خاص شناخت بنائی۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی کی سینیٹ رکن رہی ہیں۔ آل انڈیا ومینس کانفرنس کے ساتھ ان کا گہرہ تعلق رہا، اس کی اندھرا پردیش شاخ کی صدر رہیں۔ آندھرا پردیش ہندی اکیڈمی کے صدر کے عہدے پر رہتے ہوئے تیلگو کی ادبی تخليقات کا ہندی میں ترجمہ کروانے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔ ایف ایم سلیم کے ساتھ بات چیت پر مبنی کچھ یادیں یہاں راجکماری اندرا دھنراجگیر کی ہی زبانی پیش ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مما بتاتی ہیں کہ میں تین سال تک بات نہیں کر پائی تھی۔ وہ ڈر گئی کہ میں کہیں گونگی نہ ہو جاؤں۔ تین سال کے بعد میں بولنے لگی اوراپنے ہم عمر بچوں کی طرح ہی ٹھیک - ٹھاک بولنے لگی۔ اس سے پہلے ہی سے میں ایک گھوڑسواری کرتی تھی۔ میری پہلی سالگرہ کے موقع پر انکل سالارجگ نے مجھے تحفے میں ایک چھوٹی گھوڑی (pony) دی تھی۔ اس کا نام لکشمی تھا۔ میں نے اسی پر بیٹھ کر سواری سیکھی۔ بعد میں ایک عربی نسل کا گھوڑا پپا نے دلایا تھا۔ اس کا نام فیصل تھا۔ پپا راجا دھنراجگير اور انکل سالار جگ کی گہری دوستی تھی۔ دونوں ساتھ پڑھے تھے۔
میرا زیادہ تر وقت اپنی انگریز گورنیس کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ گھر کا ماحول ایسا تھا کہ دوسرے بچے کے ساتھ کھیلنے کا موقع بالکل نہیں ملتا تھا۔ دوسرے بچے زنانے میں نہیں آ سکتے تھے۔ ہم بغیر اجازت سوائے ماں کے نہ پپا سے مل سکتے تھے اور نہ دادی سے۔ اجازت بھی کچھ وقت کے لئے ہی ملتی تھی۔ بڑی روایتی زندگی تھی۔ وہیں پر ہم نے ڈسپلين سیکھا، جو زندگی بھر ہمارے کام آیا۔ کب بولنا، کب نہیں بولنا، کیسا بولنا، کیسا نہیں بولنا، کب کھڑے رہنا اور کب سلام کرنا۔ یہ سب باتیں گھر میں ہی سکھائی جاتی تھیں۔ آج کل کے زمانے میں گویا یہ سب طور طریقے پرانے دور کی باتیں ہو کر رہ گئی ہیں۔ آج جو بچہ جتنی زیادہ باتیں کریں، جتنا زیادہ ہنگامہ کرے اور ناچے وہی ہوشيار بچہ سمجھا جاتا ہے۔
آدھے دن کھیلنے کو ملتا تھا۔ اسی میں سواری کے علاوہ پنگ پانگ، بیڈمنٹن، سكیپنگ اور کچھ دیوانے سے کھیل کھیلا کرتے تھے۔ سال میں ایک یا دو بار گڑیوں کی شادی سب کا پسندیدہ کھیل تھا۔ گڑیوں کی شادی بالکل سچ مچ کی شادی کی طرح ہوتی تھی۔ چاندی کے برتن ہوتے، كمخواب کے بنارسی کپڑے، چھوٹے - چھوٹے گڈے  گڑیوں کو پہنائے جاتے۔ حقیقی گھوڈوں پر بارات نکلتی، کھانے کی دعوتیں ہوتی۔ میں نے ہوش سنبھالا تو دیکھا کہ ایک سفید ہاتھی گھر میں تھا۔ بتاتے ہیں کہ دادا کے زمانے سے وہ ہمارے گھر میں تھا۔ ای راوت نام تھا اس کا۔ اب تو اس طرح کے ہاتھی دیکھنے کو بھی نہیں ملتے۔ صبح کا ایک بڑا حصہ پڑھنے میں گزرتا، سب کتابیں انگریزی میں تھی، لیکن پپا کا یہ اصول تھا کہ ہم کبھی بھی ان کے ساتھ انگریزی میں بات نہیں کر سکتے تھے۔ ان سے ہندوستانی میں ہی بات کرنا پڑتا۔ وہ خود اردو ہی میں بات کرتے تھے۔ انگریز گورنیس تھی، لیکن ان کے طور طریقے بالکل نہیں چلتے تھے۔ ہیلو، ہائے تو کبھی ہم نے سنا ہی نہیں۔ جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی، پپا کے ساتھ کچھ مزید وقت گزرنے لگا۔ انہیں شاعری پڑھنے کا شوق تھا، لیکن ماڈرن شاعری ان کو پسند نہیں تھی۔ وہ جگر (مرادآبادی)، داغ (دہلوی) اور جلیل (مانكپوری) کو پڑھتے تھے۔

 میں ادب کے ساتھ ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ جاتی اور وہ زور سے پڑھ کر سناتے۔  وہ سيدھے سادے راست گو انسان تھے، لیکن ہولے شعلے نہیں تھے۔ جانتے تھے کہ کس چیز کی کتنی اہمیت ہے۔ گھر میں بتاتے ہیں کہ ميانے (گھوڑاگاڑی) میں اسکول جاتے تھے۔ دو بھوئی آگے اور دو بھوئی پیچھے ہو کر آواز لگاتے تھے۔ پپا کے اردو ادب سے لگاؤ ​​پر سر مرزا اسماعیل کافی متاثر تھے۔

ہم لوگ حیدرآباد میں بہت کم رہتے تھے۔ زیادہ تر وقت بمبئی (ممبئی) پونے اور دوسرے شہروں میں ہی گزرتا۔ ہر جگہ ہماری كوٹھياں تھی، لیکن پپا اپنی شناخت حیدرآباد سے ہی دیتے تھے۔ کہیں بھی انہوں نے اپنے آپ کو بمبئی یا پونے کا نہیں بتایا۔ کچھ دن بمبئی اور کچھ دن پونے کے اسکولوں میں پڑھنے کے بعد مجھے 1942 میں ممبئی کے اسکول میں داخل کر دیا گیا۔ ہمارا کہیں جانا  آنا نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی چچا پرتاپگير کے پاس جاتے تھے۔ ان کی کوٹھی میں آج ای  این ٹی ہسپتال ہے۔ برطانوی ریسڈینسی سے بھی پپا کے اچھے تعلقات تھے۔

اعلی حضرت (نظام) سے پہلی ملاقات
میں گیارہ برس کی ہونگی۔ ایک دن پپا نے کہا ہمیں اعلی حضرت سے ملنے جانا ہے۔ ہم بچے یہ سن کر ہی گھبرا گئے تھے۔ میں نے دل میں یو سوچا کہ پپا کو یہ کیا سوجھی ہے۔ ہم دلہن پاشا کو اکثر عابد شاپ (عابڈس) سے گزرتے دیکھتے تھے۔جب بھی سیٹیاں بجنے لگتی تھیں۔ سب لوگ ادھر - ادھر گلیوں میں چلے جاتے تھے۔ ایک بار جب وہ ایک دکان میں داخل ہوئیں تو میں اپنی گورنیس کے ساتھ اسی دکان میں تھی۔ وہیں پر ایک کونے میں ہم دبک کر کھڑے ہو گئے۔ میں نے دور سے ان کو دیکھا تھا، یہ بات مشہور تھی کہ ان کی موٹر کے سامنے اگر کوئی آ جاتا تو اس کو سزا کے طور پر ان کی موٹر کے سات چکر کاٹنے پڑتے۔


 ایک بار اسکول سے لوٹتے ہوئے ہم عابڈس سے گزر رہے تھے تو اعلی حضرت کی گاڑی وہاں سے گزر رہی تھی۔ وہ اکثر اپنی والدہ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جاتے تھے۔ ہم لڑکیاں ایک کنارے کھڑی تھیں۔ دور سے سب کی طرح سلام کیا۔
جب پپا نے کہا کہ اعلی حضرت سے ملنے جانا ہے تو گھر میں ایک دن پہلے ہی اس کی تیاریاں ہونے لگیں۔ کون سے کپڑے پہنیں، کس طرح سلام کریں، کس طرح کھڑے ہوں، آنکھ میں آنکھ نہ ملائیں، اپنی طرف سے کوئی بات نہ کریں۔ اس طرح کی کئی باتیں سمجھائی گئیں۔
مجھے ساڑی پہننے کی ریہرسل کرائی گئی۔ وہ جنگ كا زمانہ تھا۔ نئی بہترین ساڈياں آنی بند ہو گئی تھیں۔ ماں کی ایک پرانی بہترین ساڑی مجھے پہنائی گئی۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ایک كرسمس درخت کی طرح مجھے تیار کیا گیا۔ ان کا بلاوز میرے ناپ کے برابر ٹانكا گیا۔ انہیں کے زیور مجھے پہنائے گئے۔ گھر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے میں کئی بار گرتے- گرتے بچی۔ میرے بھائی شیروانی اور ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ نذرانہ دینے کے لئے اشرفياں لی۔ ساتھ ہی پپا نے چاندی کا خاص پاندان بنایا تھا۔ جب ہم کنگ کوٹھی پہنچے اور ہمیں اعلی حضرت کے سامنے جانے کا موقع ملا۔ تب جیسا کہ ہمیں بتایا گیا تھا، ہم نے جھک کر سلام کیا۔ بڑے ادب کے ساتھ نذرانہ ان کے ہاتھ میں رکھا۔ وہ بڑے سادہ شخص تھے۔ لیکن ان کی شخصیت روبدار تھی۔ مجھ سے انہوں نے انگریزی میں بات چیت کی۔ مجھ کو دیکھتے ہوئے انہوں نے پپا سے کہا میں نے اس لڑکی کو عابڈس کے پاس دیکھا تھا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی یادداشت بڑی اچھی تھی۔ سڑک کے کنارے لڑکیوں کے ساتھ بھیڑ میں کھڑے دیکھ کر بھی انہوں نے مجھے یاد رکھا تھا۔ پپا نے ان سے پوچھا کہ میں نے ان کو سلام کیا تھا یا نہیں؟
وہ بس مسکرائے۔ انہوں نے میری تعلیم کے بارے میں پوچھا اور ممبئی کے اسکول اور حیدرآباد میں فرق پوچھا۔ پپا نے جب پاندان پیش کیا تو انہوں نے اسے قبول کیا، لیکن ان کی نظر والد کے ہاتھ میں انگوٹھی پر جمی رہی جو ایمرالڈ کے رنگ تھی۔ وہ ہیروں کی پرکھ کرتے تھے۔ وہ پاندان آج بھی جوبلی میوزیم میں موجود ہے۔ بعد میں کئی بار اعلی حضرت سے ملاقات ہوئی۔ باہر سے اگر کوئی بھی شاہی مہمان حیدرآباد آتے تو والد کے ساتھ میں بھی استقبال کے لئے موجود رہتی تھی۔ جب ماونٹ بیٹن حیدرآباد آئے تھے تو جوبلی حال میں ان کا استقبالیہ رکھا گیا تھا۔ ہم لوگ قطار میں کھڑے تھے۔ اس وقت تین ہی خواتین موجود تھی۔ بیگم ظہیر یار جگ، بیگم لطف الدولا اور میں۔ میں تیراه چودہ برس کی تھی۔ ہمارے علاوہ وہاں راجا پرتاپگير، راجا پنالال پتی، ظہیر یار جنگ، لطف الدولا، پپا کے علاوہ کچھ اور لوگ تھے۔ ماؤنٹ بیٹن نے تینوں خواتین کی خوبصورتی کی تعریف کی تھی۔

اعلی حضرت کے پاس سے کسی کے پاس کھانہ آنا بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ یہ عنایت ہمارے گھر پر کئی بار ہوئی۔ یہ ان کے دسترخوان کا کھانا ہوا کرتا تھا۔ جو ٹفن میں بھر کر جن پر ان کی عنایت ہوتی، بھیجا جاتا۔ ماحول ایسا تھا کہ کبھی یہ سوچنے کی نوبت ہی نہیں آئی کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان۔ آج یہ سب سنتی ہوں تو بڑا عجیب لگتا ہے۔ کئی بار ان سے دعوتوں میں ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ کچھ خاص دعوتوں میں ہی شرکت کرتے۔ زنانہ میں کسی مرد کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی، لیکن عالی حضرت زنانےمیں  بھی آ سکتے تھےجب کبھی وہ زنانہ میں داخل ہوتے، خواتین ایک دستیب ہتھیلی پر رکھ کر انہیں اشرفياں نظر کرتیں۔

یادگار جلوس
میری شادی مہاراجہ کشن پرساد کے بہن کے پوتے سے طے ہوئی تھی۔ اس وقت میری عمر چودہ، پندرہ برس کی تھی۔ اس شادی کے لئے نظام سے ایک خاص فرمان جاری کیا گیا تھا۔ بتاتے ہیں کہ سكندراباد سے بارات نکلی تھی۔ بہت جاگيرا دار، خصوصاً انکل سالار جنگ کی فوج بھی جلوس میں شامل ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ حیدرآباد میں دو ہی باراتیں اتنی شان سے نکلی تھی۔ ایک ظہیر یار جنگ کی اور ایک میری۔ پپا نے صاف کہہ دیا تھا کہ اٹھارا سال ہونے تک میری وداعی نہیں ہوگی اور وداعی سے پہلے ہی یہ رشتہ ٹوٹ گیا۔ اور پھر میری دوسری شادی کئی سال بعد 1971 میں تیلگو کے مشہور شاعر شیشیندر شرما کے ساتھ ہوئی۔

 مخدوم سے پہلی ملاقات
 پپا نے مخدوم کا نام کافی سنا تھا۔ وہ ان سے  ملنا چاہتے تھے۔ 1952 میں جب مخدوم  جیل سے چھوٹ کر آئے تو ان سے ملاقات  کی ذمہ داری قمر تےيبجي پر تھی۔ مخدوم  شمس آباد میں ایک مکان پر ٹھہرے ہوئے  تھے۔ جب ہم وہاں گئے تو مکان میں ایک  سانولا آدمی میلے کپڑوں میں بیٹھا ہوا تھا، جن کا تعارف مخدوم کے طور پر کرایا گیا۔ میں کچھ ہی دن پہلے ويانا سے واپس آئی تھی اور وہاں كمييونسٹوں کے ساتھ میرے تجربے اچھے نہیں تھے۔ مخدوم سے پہلی ملاقات کا تجربہ میرے لئے اچھا نہیں تھا۔ ہم میں سخت باتیں بھی ہوئی تھیں، لیکن بعد میں مخدوم کا ہمارے گھر بہت آنا جانا رہا۔ شام  6.30 بجے کے قریب محفلیں جمتی تھیں۔ ایک دن میں نے مخدوم سے شاعری سکھانے کی خواہش کی۔ انہوں نے مجھ سے کہا میں انگریزی میں جو سوچتی ہوں وہی ایک لائین لکھ دوں، لیکن میں نے سامنے والے درخت کو دیکھتے ہوئے پتہ نہیں کیا - کیا لکھ دیا۔ مخدوم وہ لے کر چلے گئے۔ دوسرے دن شام کے وقت جب میں نے بالکنی سے جھانک کر دیکھا تو مخدوم پپا کو ایک نظم زور - زور سے سنا رہے تھے۔ پپا بہت کم مخدوم کی نظمیں سنتے تھے۔ اس وقت شیو کمار ریڈ بھی وہاں موجود تھے۔ میں کچھ دیر بعد نیچے اتری تو، پپا نے مجھ سے پوچھا، کیا تم بھی شاعری کرنے لگی ہو؟ میرے پسینے چھوٹنے لگے۔ ایسا لگا کہ اب وہ چابک لے کر مارنے لگیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا میںمخدوم پر خفا ہو گئی۔ ان کا خیال تھا کہ شاعری کے لئے عاشقی کا تجربہ ضروری ہے۔
مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ مخدوم نے بتایا کہ انہوں نے میری انگریزی نظم کا ترجمہ کیا ہے اور وہی اتنی دیر سے سنا رہے ہیں۔ وہ بہت سنجیدہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ خود اس طرح کی نظم لکھنا چاہتے تھے، لیکن لکھ نہیں سکے۔ اس لئے میری نظم کا ترجمہ کیا ہے۔ اس نظم کو بعد میں انہوں نے اپنے مجموعے کلام گل تر میں شامل کر لیا تھا۔

میں جب ماریشس کے دورے پر تھی۔ اس دوران میں نے یہ سوچ کر ایک ٹیپ ركارڑر خریدا تھا کہ اس میں میں مخدوم کی آواز ریکارڈ کر سکوں۔ اس دوران میرے ساتھ ایک عجیب و غريب- واقعہ ہوا۔ شام کا وقت تھا۔ میری آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلتے ہی میں نے پایا کہ مخدوم میرے سامنے کھڑے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے ہی۔۔۔ میں نے خواب کی - سی حالت سوچ کر اس واقعہ کو ذہن سے چھٹک دیا۔ حیدرآباد پہنچنے پر ایئرپورٹ سے گھر آتے ہوئے پپا کے سکریٹری نے بتایا کہ مخدوم نہیں رہے۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔ مجھے آج بھی محسوس ہوتا ہے کہ مخدوم یہ جہاں چھوڑنے سے پہلے روحانی طور پر مجھ کو رخصت کہنے ماریشس آئے تھے۔ وہ ٹیپ ریکارڈر میرے پاس آج بھی موجود ہے۔ اس ٹیپركارڈر میں میں نے کسی طرح کی کوئی ریکارڈنگ نہیں کی۔

پپا کے پرنس معظم جاہ اور پرنس اعظم جاہ دونوں سے اچھے روابط تھے۔ جب شہزادی نیلوفر اور درشاہوار شادی کے بعد پہلی بار حیدرآباد آئیں تھیں تو پپا نے بینگلور میں ایک شاندار پارٹی دی تھی اور اس کے بعد معظم جاہ ہمارے اوٹی کے محل میں ہی رکتے تھے۔ انوری بیگم (معطم جاہ کی دوسری بیوی) اس بات کا ذکر آج بھی کرتی ہیں۔ دونوں شہزادياں جب نامپلی اسٹیشن پر اتریں تو عالی حضرت خود انہیں لینے آئے تھے۔ دونوں بھی بہت خوبصورت تھیں۔ شفان ساڑياں پہنے، سر پر پلو اوڈھ کر آئی تھیں۔ میں اس وقت بہت چھوٹی تھی۔



پردہ نظر اور نیت میں تھا
آج جب بازاروں اور جہاں تہاں سياه برقع پوش خواتین کو دیکھتی ہوں تو مجھے عجیب لگتا ہے، اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ برقع حیدرآباد کی نئی تہذیب کا حصہ ہے۔ یہاں پردہ ضرور تھا، لیکن وہ ذہنوں اور نظروں میں ہوا کرتا تھا۔ ہمارے گھر میں ہر روز شام میں نغمے کی محفلیں ہوتی تھی۔ رقاصہ بھی آتی تھیں۔ ان کی اپنی عزت تھی۔ مجھے وہ منظر آج بھی یاد ہے۔ چچا پرتاپگيرجی ہو یا دوسرے بچے، رقص ہوتے وقت پپا کے سامنے بیٹھے ہوں تو نظریں نیچی ہوتیں۔ ایک ہندو گھر ہونے کے باوجود گھر کے نچلے حصے میں دوسرے مرد ہوںتو ہم پپا کی اجازت کے بغیر وہاں نہیں جاتے تھے۔ شہر میں چاہے ہندو عورتیں ہو یا مسلمان ان سواریوں پر پردے لگے ہوتے تھے۔ بازاروں میں جاتے ہی پردے لگائے جاتے۔ لوگوں کے ذہنوں میں پردے کا احساس تھا۔ آج پردہ عورتوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ پہلے مردوں پر بھی عورتوں کے لئے پردہ لازمی تھا۔

Comments

  1. بہت عمدہ مضمون. مبارک
    سید فضل اللہ مکرم

    ReplyDelete
  2. بہت عمدہ مضمون. مبارک
    سید فضل اللہ مکرم

    ReplyDelete
  3. السلام علیکم محترم بھترین ادبی خدمات لئے مبارکباد م

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

دنیا مٹھی میں کرنے کے باوجود آدمی مشکل میں ہے : وحید پاشا قادری

دکن ریڈیو سے آل انڈیا ریڈیو تک ... منظور الامین کی یادوں کا سفر