یادوں کے جزیرے سے ۔۔۔۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد
ڈاکٹر حسن الدین احمد صاحب ممتاز
دانشوروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ سابق نظام حکومت اور اس کے بعد آزاد ہندوستان اور
پھر ریاستی حکومت میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے پولیس ایکشن کے پہلے
اور بعد کا زمانہ دیکھا۔ آئی اے ایس عہدیدار کے طورپر مرکزی حکومت کے مختلف شعبوں
میں خدمات انجام دیں۔ معاشی ‘ تہذیبی ‘ ادبی اور مذہبی امور میں ان کی گہری دلچسپی
رہی۔ ان کی تحریروں کا سلسلہ 19ویں صدی کے چوتھے دہے میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ 1944
سے لے کر اب تک مختلف موضوعات پر ان کی تقریباً دو درجن سے زائد کتابیں شائع
ہوچکی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اردو کے طالب علم رہتے ہوئے انہوں نے دنیا
بھر میں اپنی ایک خاص شناخت بنائی۔ ان کی زندگی کے اہم واقعات‘ پرانی یادیں اور
بدلتی دنیا پر ان کے خیالات جاننے کے لئے تقرباً 7 سال پہلے ان سے ان سے ملاقات کی
تھی۔ اس بات چیت کا خلاصہ انہیں کی زبانی یہاں پیش ہے۔
........................................
والد مرہٹواڑہ کی عدالت میں تھے۔ میری پیدائش کے کچھ دن بعد ہی والدہ کا جالنہ تبادلہ ہوگیا۔ وہاں مدرسہ فوقانیہ عثمانیہ میں پانچویں جماعت میں داخلہ لیا۔ والد جب اورنگ آباد میں ڈپٹی کلکٹر بنے تو وہاں سے اورنگ آباد جانا پڑا۔ مجھے اپنی ساتویں جماعت طالب علمی کا زمانہ اب بھی یاد ہے۔ ایک بار مولوی عبدالحق صاحب کی نمائندگی میں وہاں’ یوم حالی‘ منایا گیا تھا۔ وہاں سے پھر سٹی کالج حیدرآبادمیں داخلہ ہوا۔ سٹی کالج میں اعظم صاحب پرنسپال تھے اورغلام قادر صاحب ہیڈ ماسٹر ’ ہوشدار خاں صاحب بھی وہاں تھے۔ میں ان سے کافی متاثر ہوا۔ میری زندگی کا دھارا اور سوچنے کا انداز بھی متاثر ہوا۔ ایک واقعہ ان دنوں کا سنئے جس سے آج کے اور اس وقت کے نظام تعلیم میں فرق پر روشنی ڈالنے میں آسانی ہوگی۔ اس وقت ہر محکمہ کی ذمہ داری شاہی خاندان کے کسی ایک فرد پر ہوتی تھی ۔ معظم جاہ آرائش بلدہ اور اعظم جاہ فوج کی نگرانی کرتے تھے۔ تعلیمات کا محکمہ بسالت جاہ دیکھتے تھے۔ ایک دن بسالت جاہ معائنہ کے لئے سٹی کالج آئے تھے۔ وہ ہماری جماعت میں کھڑے تھے۔ استاد نے بورڈ پر کچھ لکھ کر مجھے پڑھنے کے لئے کہا۔ میں اٹھ کر بورڈ کے نزدیک چلا گیا۔ بسالت جاہ نے اس پر سوال کیا کہ میری آنکھیں کمزور ہیں؟ اس طرح مجھے اور میرے گھر والوں کو پتہ چلا کہ میری دور کی نظر کمزور ہے۔ آج اس طرح بچوں کا خیال اور خصوصاً بڑے عہدیدار تو ایسی باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔‘‘
سٹی کالج سے فراغت کے بعد مجھے عثمانیہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ میٹرک کے بعد باعث عہدیداروں کے بچے نظام کالج جاتے تھے اور جہاں انگریزی میڈیم سے تعلیم ہوتی تھی ‘جو مدراس یونیورسٹی کے نصاب کے مطابق تھی۔انگریزی میڈیم میں داخلہ کی توقع کے باوجود میں نے عثمانیہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ عابد علی خان صاحب اور محبوب حسین جگر ایک جماعت آگے تھے‘ جب کہ شاہ عالم خاں صاحب اور پی وی نرسمہاراؤ ہم جماعت تھے۔ یونیورسٹی میں داخلہ کے بعد پہلے دو سال ہاسٹل میں رہنا لازمی تھا۔ اس وقت ہاسٹل میں کھانے اور رہنے کے انتظام کافی اچھے تھے ۔ ان انتظامات کو دیکھتے ہوئے یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ آگے چل کر طلباء کی زندگی میں اس طرح کی سہولتیں نہ ملیں تو ان کے لئے مسائل پیدا ہوں گے ۔ لیکن اس وقت سراکبر حیدری نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ یونیورسٹی اپنے طلباء کو اس قابل بنائے گی کہ وہ اس سے بہترزندگی بتاسکیں‘ انہیں اعلیٰ خدمات کے لئے تیار کیا جائے گا۔ اس وقت ہاسٹل کی فیس صرف 12روپئے تھی۔ اسی میں ایک روپئے جماعت اور ایک روپئے دھوبی کا خرچ ہوا کرتا تھا۔ اس وقت بڑے بڑے دانشور یہاں موجود تھے۔ ان کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔ فرمائش پر ادب لکھوائے جانے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ سکندرعلی وجد کو اجنتا کی پہاڑی پر نظم لکھنے کے لئے تین چار مہینے کی چھٹی دی گئی تھی اور فرخ آباد کے ڈاک بنگلے میں ایک کمرہ دیا گیا تھا اور پھر ایک مشہور نظم کی تخلیق ہوئی۔ اس نظم کا شمار دنیائے ادب کی اہم نظموں میں کیا جاتا ہے۔
ان کی قابلیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے
کہ وہ جب یہاں سے پاکستان گئے تو انہیں ملک کا فینانشیل ایڈوائزر بنایا گیا۔ایک
اور فلسفہ کے پروفیسر خلیفہ عبدالحکیم تھے جو بعد میں پاکستان میں عالمی سطح کی
انجمن ثقافت اسلامیہ کے صدر بنائے گئے۔
تعلیم اور روزگار ہمیشہ سے ہی ایک اہم
موضوع رہا ہے۔ تعلیم کے بعد روزگار اور پھر اہم عہدوں پر اہل لوگوں کی تلاشی سکہ
کے دو پہلو ہیں۔ مانا کہ گزشتہ چند برسوں سے اہل امیدواروں کے لئے روزگار کے کئی
دروازے کھلے ہیں‘ لیکن اس سے پہلے ایک لمبا عرصہ روزگار کے لئے خصوصاً مسلمانوں کے
لئے کافی مایوس کن رہا ہے۔اہل امیدواروں کو روزگار کا مسئلہ پہلے بھی نہیں تھا۔ بلکہ
اعلیٰ عہدوں پر مقرر کرنے سے پہلے خصوصاً حیدرآباد سیول سرویس (ایچ سی ایس) کے لئے
منتخب لوگوں کو مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کرنے کے لئے مدراس ‘ ممبئی اور ناگپور
بھیجاجاتا تھا۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ آج کے آئی اے ایس عہدیداروں کے مقابلے
میں ایچ سی ایس کے عہدہ کافی بہتر تھا‘‘۔
مجھے 1946 ء میں مذہبی امور کا اسسٹنٹ ڈائرکٹر بنایا گیا تھا۔ یہ ان 300 نوجوان عہدیداروں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ، یورپ، جرمنی اور دیگر ممالک کو بھیجا گیا تھا ان میں مَیں بھی شامل تھا۔ تاریخ کا یہ ایک اہم ترین واقعہ رہا کہ جب یہ عہدیدار بیرون ملک میں حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے تو پولیس ایکشن کا واقعہ ہوا اور ان تین سو لوگوں میں زیادہ تر لوگ ان ممالک سے سیدھے پاکستان چلے گئے۔ ’’پاکستان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اس کو اتنی بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ملے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر وہ عہدیدار پاکستان نہیں جاتے تو پاکستان اپنے آپ کو قائم نہیں رکھ سکتا تھا۔ ملک کی تعمیر کرنے والے لوگ تو یہی تھے لیکن ان میں چند لوگوں نے حیدرآباد واپس آنے کا فیصلہ کیا ان میں میں بھی تھا۔ لیکن جو واپس آئے ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔ میں اس وقت ڈائرکٹرکے عہدہ پر تھا۔ لیکن اس وقت کی ملٹری حکومت نے مجھے اسسٹنٹ ڈائرکٹر بنایا اور (ہندو) اسسٹنٹ ڈائرکٹر کو ڈائرکٹر بنادیا۔ اس معاملے میں استفسار پر بتایا گیا کہ حکومت کی یہی پالیسی ہے کہ کسی بھی محکمہ کا سربراہ مسلم عہدیدار نہیں ہوگا۔ لیکن راجہ تر مہلک لال نے بڑے ہی خلوص سے مجھے اکیلے میں بلا کر اپنی مجبوری بتاتے ہوئے محکمہ چلانے میں میری مدد مانگی۔ اس وقت جو سرکاری ملازم اور اعلیٰ عہدیدار تھے اور جو پاکستان نہیں گئے ان کی گرفتاریاں ہوئیں اور انہیں ستایا بھی گیا۔ والد نے پاکستان نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا انہیں بھی گرفتار کیا گیا۔ میں یہاں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ اس وقت بھی اور آج بھی تعصب عام لوگوں میں نہ تھا اور نہ ہے۔ سیاسی لوگ ضرور تعصب سے کام لیتے ہیں۔
مجھے 1946 ء میں مذہبی امور کا اسسٹنٹ ڈائرکٹر بنایا گیا تھا۔ یہ ان 300 نوجوان عہدیداروں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ، یورپ، جرمنی اور دیگر ممالک کو بھیجا گیا تھا ان میں مَیں بھی شامل تھا۔ تاریخ کا یہ ایک اہم ترین واقعہ رہا کہ جب یہ عہدیدار بیرون ملک میں حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے تو پولیس ایکشن کا واقعہ ہوا اور ان تین سو لوگوں میں زیادہ تر لوگ ان ممالک سے سیدھے پاکستان چلے گئے۔ ’’پاکستان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اس کو اتنی بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ملے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر وہ عہدیدار پاکستان نہیں جاتے تو پاکستان اپنے آپ کو قائم نہیں رکھ سکتا تھا۔ ملک کی تعمیر کرنے والے لوگ تو یہی تھے لیکن ان میں چند لوگوں نے حیدرآباد واپس آنے کا فیصلہ کیا ان میں میں بھی تھا۔ لیکن جو واپس آئے ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔ میں اس وقت ڈائرکٹرکے عہدہ پر تھا۔ لیکن اس وقت کی ملٹری حکومت نے مجھے اسسٹنٹ ڈائرکٹر بنایا اور (ہندو) اسسٹنٹ ڈائرکٹر کو ڈائرکٹر بنادیا۔ اس معاملے میں استفسار پر بتایا گیا کہ حکومت کی یہی پالیسی ہے کہ کسی بھی محکمہ کا سربراہ مسلم عہدیدار نہیں ہوگا۔ لیکن راجہ تر مہلک لال نے بڑے ہی خلوص سے مجھے اکیلے میں بلا کر اپنی مجبوری بتاتے ہوئے محکمہ چلانے میں میری مدد مانگی۔ اس وقت جو سرکاری ملازم اور اعلیٰ عہدیدار تھے اور جو پاکستان نہیں گئے ان کی گرفتاریاں ہوئیں اور انہیں ستایا بھی گیا۔ والد نے پاکستان نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا انہیں بھی گرفتار کیا گیا۔ میں یہاں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ اس وقت بھی اور آج بھی تعصب عام لوگوں میں نہ تھا اور نہ ہے۔ سیاسی لوگ ضرور تعصب سے کام لیتے ہیں۔
جنوبی ہند کے ہر آئی اے ایس عہدیدارکو
2سال کے لئے مرکزی حکومت بھیجا جاتا تھا۔ لیکن جنوبی ہند کے عہدیدار شمالی ہند
جانے سے اور دوسرے اپنے آپ کو وہاں کے کلچر اور ماحول میں ڈھال نہیں پاتے تھے۔
میرے ساتھ یہ بات نہیں تھی اس لئے 2سال کے لیے بھیجے جانے کے باوجود میں وہاں 6سال
تک رہ پایا۔
مجھے ایسا لگا کہ گلی کوچوں سے نکل کر ہائی دے پر آگیا ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ آندھراپردیش اور شمالی ہند دونوں کے تعصب کی نوعیت الگ الگ ہے۔ شمالی ہند میں جو تعصب ہے وہ مسلمانوں اور اسلام سے خوف کا احساس ہے۔ جب کہ جنوبی ہند میں یہ تعصب اجنبیت کی وجہ سے ہے۔’’ میں ماضی کا طرفدارکبھی بھی نہیں رہا۔ کیوں کہ ماضی تو گزر گیا ہے۔ حال ہمارے پاس موجود ہے۔ اور مستقبل کو کس نے دیکھا ہے ؟ لیکن ہم کو ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے حال اور مستقبل کا لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ ماضی کے اچھے اور برے تجربات سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ جہاں تک تہذیب کی بات ہے حیدرآباد کی جو تہذیب ہے۔ وہ صرف حیدرآباد کی شہری علاقے کی تہذیب ہے۔ اس کے آس پاس کا علاقہ بھی اس سے دور رہا ہے۔ تہذیب کو وسیع النظر سے دیکھا جائے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مسلمان جب ہندوستان آئے تو ان کی تہذیب بین الاقوامی اور ماڈرن تہذیب تھی۔ جب کہ ہندوستانی تہذیب دنیا کی سب سے قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہاں ایک بات اہم ہے کہ ان دو تہذیبوں کا صرف موسیقی اور فن تعمیر بلکہ زندگی کے رہن سہن میں بھی ملاپ ہوا۔ اس کے برعکس جب انگریز یہاں آئے تو ہندوستانی اور انگریزی تہذیب میں ٹکراؤ کی حالت پیدا ہوگئی۔ مسلمانوں کے ہندوستان آنے کے بعد جس تہذیب نے جنم لیا وہ دنیا کی شاندار تہذیب رہی۔ لیکن انگریزوں نے ہندستان میں پیداہوئی اس نئی تہذیب پر چادر ڈال دی۔ حیدرآباد، بھوپال، لکھنو اور راجستھان کی ریاستوں میں اس تہذیب کو انگریز زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکے۔ لیکن خصوصاً بعد میں ہندوستان کے سیاسی ہندوؤں نے اس کو نقصان پہنچایا اور آج مسلمانوں کے ہاتھ سے بھی وہ تہذیب چلی گئی ۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج مسلمانوں کے پاس حکمت نہیں ہے۔ یہاں اس بات کو کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں نے آزادی کے بعد سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ وہ ان کو بھی ہندوسمجھتے رہے جو ہندوازم کے دائرہ سے باہر تھے ‘جیسے دلت وغیرہ۔ جس کے نتیجے میں ہندوستان میں سب سے بڑی اقلیت اپنے حق سے محروم رہی۔
مجھے ایسا لگا کہ گلی کوچوں سے نکل کر ہائی دے پر آگیا ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ آندھراپردیش اور شمالی ہند دونوں کے تعصب کی نوعیت الگ الگ ہے۔ شمالی ہند میں جو تعصب ہے وہ مسلمانوں اور اسلام سے خوف کا احساس ہے۔ جب کہ جنوبی ہند میں یہ تعصب اجنبیت کی وجہ سے ہے۔’’ میں ماضی کا طرفدارکبھی بھی نہیں رہا۔ کیوں کہ ماضی تو گزر گیا ہے۔ حال ہمارے پاس موجود ہے۔ اور مستقبل کو کس نے دیکھا ہے ؟ لیکن ہم کو ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے حال اور مستقبل کا لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ ماضی کے اچھے اور برے تجربات سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ جہاں تک تہذیب کی بات ہے حیدرآباد کی جو تہذیب ہے۔ وہ صرف حیدرآباد کی شہری علاقے کی تہذیب ہے۔ اس کے آس پاس کا علاقہ بھی اس سے دور رہا ہے۔ تہذیب کو وسیع النظر سے دیکھا جائے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مسلمان جب ہندوستان آئے تو ان کی تہذیب بین الاقوامی اور ماڈرن تہذیب تھی۔ جب کہ ہندوستانی تہذیب دنیا کی سب سے قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ یہاں ایک بات اہم ہے کہ ان دو تہذیبوں کا صرف موسیقی اور فن تعمیر بلکہ زندگی کے رہن سہن میں بھی ملاپ ہوا۔ اس کے برعکس جب انگریز یہاں آئے تو ہندوستانی اور انگریزی تہذیب میں ٹکراؤ کی حالت پیدا ہوگئی۔ مسلمانوں کے ہندوستان آنے کے بعد جس تہذیب نے جنم لیا وہ دنیا کی شاندار تہذیب رہی۔ لیکن انگریزوں نے ہندستان میں پیداہوئی اس نئی تہذیب پر چادر ڈال دی۔ حیدرآباد، بھوپال، لکھنو اور راجستھان کی ریاستوں میں اس تہذیب کو انگریز زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکے۔ لیکن خصوصاً بعد میں ہندوستان کے سیاسی ہندوؤں نے اس کو نقصان پہنچایا اور آج مسلمانوں کے ہاتھ سے بھی وہ تہذیب چلی گئی ۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آج مسلمانوں کے پاس حکمت نہیں ہے۔ یہاں اس بات کو کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں نے آزادی کے بعد سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ وہ ان کو بھی ہندوسمجھتے رہے جو ہندوازم کے دائرہ سے باہر تھے ‘جیسے دلت وغیرہ۔ جس کے نتیجے میں ہندوستان میں سب سے بڑی اقلیت اپنے حق سے محروم رہی۔
تہذیبی تبدیلیوں نے خود مسلمانوں کو اسلام سے دور نہیں کیا؟ تہذیب کے ساتھ ساتھ اقدار بھی گراوٹ آگئی۔ اس کے لئے کسی ایک کو ذمہ دار نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ سیاست ، فلم ، مذہبی لوگ اور صحافت بھی اس کے لئے ذمہ دار ہے۔ سیاست نے لوگوں کو اوپر اٹھانے کے بجائے وہ خود نیچے کی سطح پر اتر آئی۔ وہ عوام کی بہتری کرسکتے تھے ‘لیکن پیسے بنانے کے لئے عوام کو بے وقوف بنانے کا کام کیا۔ سیاست دانوں کی سوچ صرف پانچ سال کے لئے محدود ہو کر رہ گئی، جب کہ نظام کے دور کی سیاست کو دیکھا جائے تو وہاں تھوڑی سی مدت کے لئے کام نہیں ہوتا تھا‘ بلکہ طویل منصوبہ بندی ہوا کرتی تھی۔ اگر مذہبی لوگوں کی بات کریں تو وہ منبر سے عوام کو فائدہ پہنچاسکتے تھے ،لیکن بھی اپنے آپ کو عقائد تک محدود رکھا۔ صحافت نے بھی تبدیلیوں کا ہی راگ الاپااور کل ملا کر بات کی جائے تو ہم نے مغربی تہذیب کی صرف برائیوں کو ہی اپنایا۔ وہاں کی اچھائیوں کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔
حیدرآبادی مسلمان اور ان میں آئی تبدیلیوں کے بارے میں کیا بتاوں۔۔ 1948 ء کے بعد حیدرآباد پڑھے لکھے اور ذہین اور بڑی عمر کے مسلمانوں سے محروم رہا۔ بڑی تعداد میں پڑھے لکھے لوگ پاکستان چلے گئے اور وہاں ان کی قابلیت کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی۔ اب اگر 70اور 80 کے دہے کے بعد کا دور لیں تو اپنی معاشی حالت کو سدھار نے کے مقصد سے ہزاروں کی تعداد میں پڑھے لکھے لوگوں نے بھی ملک چھوڑ دیا‘ جس کے نتیجے میں نئی نسلیں اس دور میں بھی اس قابلیت سے محروم رہیں۔ ملک اور سماج کو یہ بڑا غیر معمولی نقصان سہنا پڑا‘ اس سے سماج میں کئی طرح کی خرابیاں پیدا ہوئیں۔
ابتدائی دنوں کی بات کریں تو بڑے عہدیداروں میں رشوت خوری نہیں تھی۔ چھوٹے درجہ کے ملازم بھی اس سے بچے رہتے تھے لیکن بعد میں بڑے عہدیدار چھوٹے عہدیداروں اور سیاست دانوں کے درمیان لالچ کا شکار ہو کر رشوت خوری کے عادی بن گئے۔ ’’جہاں تک مسلمان عہدیداروں کی بات ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ یہ لوگ رشوت لینے میں ایمانداری سے کام نہیں لیتے۔ ان کا مطالبہ اکثر اوقات واجبی نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں بدنام ہوجاتے ہیں اس کے مقابلے میں آندھراکے عہدیداروں کا مطالبہ اس کام کے حساب سے ہی ہوتا ہے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مسلمان کاروبار میں بھی ناکام رہے اور انہیں رشوت خوری میں بھی بدنامی ہی ملی‘‘۔
آج وقف بورڈ میں تقریباً سبھی ملازمین مسلمان ہیں ‘لیکن پھر وہاں بھی رشوت خوری کا بازار گرم ہے مسلمانوں نے رشوت خوری کے لئے کئی طرح کے جواز پیش کرنے شروع کئے۔ پولیس ایکشن کے خلاف لوگوں کے خیالات بدلے۔ وقف جائیدادوں کے بارے میں یہ کہتے سنا گیا کہ ہم نہیں کھائیں گے تو دوسرا کھاجائے گا ۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی کمپنیوں نے وقف عہدیداروں کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کئے اور لالچ بڑھتی گئی۔ لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس سے معاشرے کو کتنا بڑ ا نقصان پہنچ رہا ہے۔انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ قوم کو فروخت کررہے ہیں۔‘‘

Comments
Post a Comment