Posts

Showing posts from 2017

کبھی جب میں تمہیں سمجھ نہ پاؤں ....

Image
دیکھنا میری عینک سے ... پتہ ہے ! آج تم جب باتیں کر رہے تھے، تو مجھے لگ رہا تھا کہ وہ باتیں میرے کانوں تک تو پہنچ رہی تھیں، لیکن دماغ یا دل تک رسائی حاصل کرنے سے پہلے ہی کہیں غائب ہو جاتی تھیں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ وہ تم نہیں ہو، تم تھے بھی نہیں، ہو بھی نہیں سکتے تھے۔ بھلا اس طرح بات کرنے والا وہ شخص جو میرے سامنے کھڑا تھا، وہ صرف تمہارے بھیس میں کوئی جسم کھڑا تھا اور اس میں محض بولنے کی طاقت تو تھی، لیکن ان سے منسلک جو دوسرا پہلو میرے پاس تھا، اس کو تم یا تمہارے بھیس میں کھڑا وہ شخص سمجھ نہیں رہا تھا۔ ... میں تمہیں بتانا چاہتا تھا کہ معاملہ ویسا نہیں تھا، جیسا تم سمجھ رہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ تم اس وقت مجھے سمجھنے کی حالت میں نہیں ہو۔ الجھنا بیکار تھا۔ میں نے دعا کی۔ غالب کی طرح ... یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور ... میں سوچتا رہ گیا کہ غالب نے اس شعر کے دوسرے مصرے میں جو بات کہی ہے، وہ پہلے والے مصرے میں آئی نا امیدی اور مایوسی کے باوجود ایک آس، امید اور مثبت پہلو کے امکانات کو زندہ رکھنے کا اشارہ کرتی ہے۔ اس بات کے ...

دکن میں گنگا جمنی تہذیب کی کچھ جھلکیاں

Image
{پی نرسا ریڈی سے یہ انٹریو دو الگ الگ ملاقاتوں میں لیا گیا ہے، جو  روزنامہ اعتماد اور سیاست میں شائع ہوا تھا۔} پی . نرسا ریڈی کو زیادہ تر اُردو داں لوگ شنکر جی میموریل سوسائٹی کے صدرکے طور پر جانتے ہیں‘ نرمل میں ایک وکیل کے گھر پیدا ہوئے۔ نرسا ریڈی کوان کی والدہ ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں، لیکن قسمت سے وہ بھی وکیل بن گئے اور پھر ریاست کی سیاست میں بھی انہوں نیاپنے یاد گار نشان چھوڑے ہیں۔تقریباً15برس تک ایم ایل اے رہے۔پارلیمنٹ کے لیے بھی منتخب ہوئے۔پردیش کانگریس کی صدارت کا موقع ملا۔وزیر مال کے طور پر انہوں نے بڑے پیما ے پر اصلاحات لائیں۔تقریباً ساڑھے تین دہوں تک شنکر جی میموریل سوائٹی کے صدر رہے۔ان سے بات چیت کاخلاصہ پیش ہے: میری پیدائش 18آبان 1339 ؁ء فصلی کو ضلع عادل آباد کے نرمل میں ہوئی جو 22؍ ستمبر1930 ؁ء یا 1931 ؁ء کے مطابق بتائی جاتی ہے ۔ والد وکیل تھے۔ جب میں صرف دو سال کا تھا تو والد کا انتقال ہوگیا۔ ان کے بارے میں جو کچھ میری معلومات ہیں وہ دوسروں سے سنی ہوئی ہیں۔ بتاتے ہیں کہ وہ وکالت کے ساتھ ساتھ زراعت اور تجارت بھی کرتے تھے۔ ہمارے علاقے کے مانے ہوئے وکیل صدیق خاں ...

سچے اور اچھے لوگاں بھی ہیں صاب

Image
(نیا کالم) دیکھ نا میری عینک سے بات ان دنوں کی ہے جب میں حیدرآباد کے اردو روزنامہ منصف کے لئے ایک کالم لکھ رہا تھا، ہجوم میں چہرہ۔ کام ذرا سا مشکل تھا۔ بھیڑ میں سے ایسے چہروں کو ڈھونڈ نکالنا تھا، جو بھیڑ سے مختلف ہوں۔ بلکہ کئی تو ایسے تھے، شاید ہی انہوں نے کبھی یہ سوچا ہوگا کہ ان کے بارے میں بھی اخبار میں لکھا جا سکتا ہے، یا ان کی تصویر بھی چھپ سکتی ہے۔ ایسے ہی چہروں میں سے ایک چہرے نے باتوں باتوں میں بڑی دلچسپ بات کہی  تھی ۔ بات ایک مخصوص پیشے سے منسلک کچھ افراد کی تھی۔  لوگ دھوکہ دے کر پیسے کما رہے تھے اور یہ شخص بھی اسی پیشے سے منسلک تھا، لیکن اس نے اپنی شبیہ پر داغ لگنے نہیں دیا تھا۔ حالانکہ اس نے اپنے بارے میں نہیں بلکہ اپنے جیسے دوسرے لوگوں کے بارے میں کہا تھا .... سچے اور اچھے لوگاں بھی ہیں صاب ! آج دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بھروسہ نام کی چیز بھی اتنی ہی تیزی سے دنیا سے اٹھتی جا رہی ہے۔ چاہے وہ کاروبار ہو یا پیشہ، لوگ آسانی سے کسی پر یقین نہیں کر پا رہے ہیں۔ ایسے میں جو اچھے اور سچے لوگ ہیں، ان کی شناخت بحران کا شکار ہے۔ حیدرآب...

کہانی پھر کہانی ہے کہیں سے ابتداء کردو

Image
پولیس ایکشن کے دوران ’’حیدرآباد دکن‘‘ کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں کیا کچھ ہوا اس سے تاریخی کتابوں کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ ڈاکٹر مظفر الدین فاروقی اس وقت 13سال کے تھے۔ وہ جن حالات سے گزر کر حیدرآباد پہنچے اور یہاں پہنچ کر جدوجہد کے جس لمبے اور صبر آزما دور سے گزرے‘ اس کا ذکر ان کے افسانوں کے مختلف کرداروں میں ملتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف ان حالات کا مقابلہ کیا‘ بلکہ کامیابیوں کی راہ پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لکچرار اور آر آرایل کے سائنٹفک آفیسر کے طورپر کام کرنے کے بعد وہ آج سے تقریباً 43 سال پہلے امریکہ چلے گئے۔ امریکہ میں انہوں نے اپنے پیشہ وارانہ خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی اور تعلیمی میدان میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں عالمی مشاعروں کے انعقاد میں ان کا اہم رول رہا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی المنائی اسوسی آف شکاگو کے صدر اور انڈواسلامک فاؤنڈیشن امریکہ کے سکریٹری جنرل کے طورپر بھی انہوں نے خدمات انجام دیں ۔  تقریبا دس سال پہلے جب وہ حیدرآباد کے سفر تھے ان کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا تھا-  کاخلاصہ پیش ہے۔ .................................

دکن ریڈیو سے آل انڈیا ریڈیو تک ... منظور الامین کی یادوں کا سفر

Image
ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے میدان میں ملک میں اپنے دور کی سب سے فعال شخصیت منظور الامین نہیں رہے۔ جیسے ان کے ساتھ ایک دور ختم ہو گیا۔ انہوں نے دکن ریڈیو حیدرآباد کے ٹاک پروڈیوسر سے اپنی عملی زندگی کی شروعات کی تھی اور ڈائرکٹر جنرل دوردرشن کے عہدے تک پہنچے۔ آل انڈیا ریڈیو پراردوسرویس شروع کرنے کا سہرا انہیں کے سر جاتا ہے۔ وہ جہاں رہے اردو کی ترقی کے لئے کوشاں رہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے علاوہ ادب ، شاعری اور تدریس میں بھی ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ عمر، ان کے جذبے میں کبھی رکاوٹ نہیں رہی۔طویل عمری کے باوجود مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ان کی گراں قدر تدریسی خدمات حیرت انگیز اورقابل قدر ہیں۔جسے مانو کی تاریخ کبھی نہیں بھلا سکتی۔ میں  نے دسمبر 2006 میں ان کے ساتھ طویل انٹریو کیا تھا۔ جو 17دسمبر 2006 کو اعتماد کے کالم میری یادیں، میری باتیں میں شائع ہوا تھا۔ اور بعد میں میری کتاب یادوں کے سائے باتوں کے اجالے میں بھی اس کو شامل کیا گیا۔ قرئین تک پہنچانے کے لئے اسے یہاں منظورالامین ہی کی زبانی پیش کر رہا ہوں۔  ...............................................................

یادوں کے جزیرے سے ۔۔۔۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد

Image
ڈاکٹر حسن الدین احمد صاحب ممتاز دانشوروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ سابق نظام حکومت اور اس کے بعد آزاد ہندوستان اور پھر ریاستی حکومت میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے پولیس ایکشن کے پہلے اور بعد کا زمانہ دیکھا۔ آئی اے ایس عہدیدار کے طورپر مرکزی حکومت کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیں۔ معاشی ‘ تہذیبی ‘ ادبی اور مذہبی امور میں ان کی گہری دلچسپی رہی۔ ان کی تحریروں کا سلسلہ 19ویں صدی کے چوتھے دہے میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ 1944  سے لے کر اب تک مختلف موضوعات پر ان کی تقریباً دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اردو کے طالب علم رہتے ہوئے انہوں نے دنیا بھر میں اپنی ایک خاص شناخت بنائی۔ ان کی زندگی کے اہم واقعات‘ پرانی یادیں اور بدلتی دنیا پر ان کے خیالات جاننے کے لئے تقرباً 7 سال پہلے ان سے ان سے ملاقات کی تھی۔ اس  بات چیت کا خلاصہ انہیں کی زبانی یہاں پیش ہے۔ ........................................  والد مرہٹواڑہ کی عدالت میں تھے۔ میری پیدائش کے کچھ دن بعد ہی والدہ  کا جالنہ تبادلہ ہوگیا۔ وہاں مدرسہ فوقانیہ عثمانیہ میں پانچویں جماعت...

ایک تہذیب کا سفر- پرنسس اندرا دھنراجگير کی یادوں میں بسا حیدرآباد

Image
راجكماری اندرا دھنراجگير حیدرآباد کے ایک مشہور جاگیردار اور ادب نواز راجہ دھنراجگير کی بیٹی ہیں۔ یہ گھرانا ان بہت کم خاندانوں میں سے ایک تھا، جو حیدرآباد کی آصف جاہی حکومت اور یہاں کے نوابوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ حیدرآباد میں پان باغ محل ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ اسی ماحول میں راجکماری نے ہوش سنبھالا۔ اپنے والد کے ساتھ رہتے ہوئے شاہی دربار اور نوابوں، جاگیر داروں کے خاندانوں سے ان کے اچھے تعلقات رہے۔ حیدرآباد سے انڈو - اینگلين شاعرہ کے طور پر بھی انہوں نے دنیا بھر میں اپنی خاص شناخت بنائی۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی کی سینیٹ رکن رہی ہیں۔ آل انڈیا ومینس کانفرنس کے ساتھ ان کا گہرہ تعلق رہا، اس کی اندھرا پردیش شاخ کی صدر رہیں۔ آندھرا پردیش ہندی اکیڈمی کے صدر کے عہدے پر رہتے ہوئے تیلگو کی ادبی تخليقات کا ہندی میں ترجمہ کروانے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔ ایف ایم سلیم کے ساتھ بات چیت پر مبنی کچھ یادیں یہاں راجکماری اندرا دھنراجگیر کی ہی زبانی پیش ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مما بتاتی ہیں کہ میں تین سال تک بات نہیں کر پائی تھی۔ وہ ڈر گئی کہ میں کہ...