کہانی پھر کہانی ہے کہیں سے ابتداء کردو
پولیس ایکشن کے دوران ’’حیدرآباد دکن‘‘ کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں کیا کچھ ہوا اس سے تاریخی کتابوں کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ ڈاکٹر مظفر الدین فاروقی اس وقت 13سال کے تھے۔ وہ جن حالات سے گزر کر حیدرآباد پہنچے اور یہاں پہنچ کر جدوجہد کے جس لمبے اور صبر آزما دور سے گزرے‘ اس کا ذکر ان کے افسانوں کے مختلف کرداروں میں ملتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف ان حالات کا مقابلہ کیا‘ بلکہ کامیابیوں کی راہ پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لکچرار اور آر آرایل کے سائنٹفک آفیسر کے طورپر کام کرنے کے بعد وہ آج سے تقریباً 43 سال پہلے امریکہ چلے گئے۔ امریکہ میں انہوں نے اپنے پیشہ وارانہ خدمات کے ساتھ ساتھ سماجی اور تعلیمی میدان میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں عالمی مشاعروں کے انعقاد میں ان کا اہم رول رہا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی المنائی اسوسی آف شکاگو کے صدر اور انڈواسلامک فاؤنڈیشن امریکہ کے سکریٹری جنرل کے طورپر بھی انہوں نے خدمات انجام دیں ۔ تقریبا دس سال پہلے جب وہ حیدرآباد کے سفر تھے ان کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا تھا- کاخلاصہ پیش ہے۔
.................................................
میری پیدائش9؍ نومبر 1935 ء کو ضلع میدک کے ایک چھوٹے سے گاؤں کھمم پلی میں ہوئی۔ یہ حیدرآباد سے تقریباً55میل کی دوری پر سدا شوپیٹھ اور ظہیرآباد کے درمیان ہے۔ والد مہتاب پٹیل گاؤں کے مالی پٹیل تھے سارا مالگزاری کا انتظام وہی دیکھتے تھے۔ والدہ کا تعلق کو ہیر کے نائب قاضی کے خاندان سے تھا ۔ گاؤں میں بڑا اسکول نہیں تھا۔ گاؤں کے استاذ مولوی احمد علی صاحب عربی اور اردو پڑھانے گھر پر ہی آتے تھے۔ والد کا سارا کاروبار تلگو میں ہی چلتا تھا اور وہ سب کاروائیاں اسی زبان میں ہی لکھتے تھے۔ کچھ مہینے کے لئے مجھے تلگو میڈیم اسکول میں داخل کیا گیا۔ پھر اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے 6سال کی عمر میں گھر چھوڑنا پڑا۔ خالو مدھول کے اسکول میں ٹیچر تھے۔ وہیں مجھے بھیج دیا گیا۔ وہاں سے ان کا تبادلہ احمد پورہوا تو میں ان کے ساتھ وہاں آگیا۔
بتاتے ہیں کہ والدین کی شادی کے پانچ سال بعد پیدا ہوا تھا۔ کئی منتیں ‘ مرادیں مانگی گئی تھیں۔ والدہ شاہ اسماعیل قادری کو بہت مانتی تھیں۔ میں 10برس کا تھا ۔ ہم لوگ گھوڑواڑی شریف سے واپس لوٹ رہے تھے کہ راستے میں والدہ کا انتقال ہوگیا۔ مجھے اس کے بعد کو ہیر کے اسکول میں داخل کیا گیا۔
پولیس ایکشن:
ساتویں جماعت میں داخل ہو کر ابھی تین مہینے ہی گزرے تھے کہ گاؤں میں معلوم ہوا کہ انڈین یونین کی فوجوں نے حیدرآباد پر حملہ کر دیا ہے۔ جمعرات کو کوہیر میں بازار لگاکرتا تھا۔ شاید 15یا 16ستمبر رہی ہوگی۔ معلوم ہوا کہ فوجیں ظہیرآباد سے آگے نکل گئی ہیں ۔ نانا کا انتقال ہو چکا تھا۔ گھر میں مردوں میں مَیں ہی سب سے بڑا تھا۔ گھر میں نانی‘ نانی کی بڑی بہن‘ جن کو فالج ہوگیا تھا‘ اور خالہ کی لڑکیاں تھیں۔ سڑکوں پر بمبار ہورہی تھی۔ راتوں میں چمک اور آواز گھر کی چھتوں پر بیٹھ کر دیکھتے تھے۔ والد بھی ان دنوں حیدرآباد گئے ہوئے تھے۔ گھروالوں نے طے کیا کہ سب لوگ ماموں کے پاس بلال پور چلے جائیں۔ بڑی نانی کا ہاتھ پکڑ کر میں چلتا رہا۔ بارش کے دن تھے۔ راستے پر کیچڑجم گیا تھا۔ جب بھی کوئی بم یامورٹار چلنے کی آواز آتی نانی گرجاتیں۔ میں پھر ان کو اٹھا کر اسی طرح پکڑ لیتا۔ ہم لوگ دو تین گھنٹوں کے بعدبلال پور پہنچے۔ پتہ چلا کہ ماموں بھی حیدرآباد چلے گئے ہیں۔ وہاں بھی کوئی بڑا آدمی گھر میں نہیں تھا۔ حیدرآباد میں عبدالحئی وکیل والد صاحب کے دوست تھے۔ بلال پور میں خطرہ بہت زیادہ تھا۔ اس لئے ہمارا خاندان وہاں سے پنارپلی کی طرف نکلا جہاں ماموں کے کھیت تھے۔ وہاں سے کچھ غلاجمع کیا گیا اور بیل بنڈیاں لی گئی۔ پھر وہاں سے کوٹ پلی آگئے۔ ماموں بھی وہاں آچکے تھے۔ لڑاکا طیارے ان دنوں حیدرآباد کی فضا میں گھوم رہے تھے۔ کوٹ پلی کے پٹیل نے کہا کہ ہمارا وہاں رہناٹھیک نہیں‘ کیوں کہ کچھ لوگوں سے خطرہ ہے۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کے ہم جہاں سے نکلتے تھے وہاں فساد ہوجاتا تھا اور مسلمانوں کو قتل کیا جارہا تھا۔ اس طرح موت ہمارے ایک گاؤں پیچھے تھی۔ کسی طرح دھارور پہنچ کر رات کے تین بچے ٹرین میں بیٹھ گئے۔ اس طرح کیچڑسے لت پت ننگے پاؤں کے ساتھ حیدرآباد کی زمین پر پہلی بار قدم رکھا۔ تب تک حیدرآباد انڈین یونین میں شامل ہوچکا تھا۔ سب سے پہلے ہم عبداللہ شاہ صاحب کی درگاہ کے پاس گئے۔ وہاں منہ ہاتھ دھویا۔ وہاں سے محلہ نظام شاہی آئے۔ جب حیدرآباد آئے تو یہاں گزر بسر کا بڑا مسئلہ تھا ۔ خاندان کے کئی افراد ایک ساتھ رہتے تھے۔ میں تب تقریباً 14سال کا تھا۔ میرے چھوٹے بھائی بھی تھے۔ ہم نے مل کر ٹھیلہ بنڈی پر کھجور اور دوسرے پھل بیچنا شروع کیا۔ بعد میں والد صاحب نے لکڑی کی ٹال خریدی۔ یہاں پر ایک سیکل رکشا بھی تھا۔ یوں تو یہ رکشا لکڑیاں لانے لے جانے کے لئے تھا لیکن کبھی کبھی میں اس پر سواریاں بھی کرلیتا۔ پھر ہم دونوں بھائی کچھ دن تک دکن بٹن فیکٹری بھی گئے۔ وہاں پر بٹن گھس کر چمکانے کا کام ہوتا تھا۔ اس طرح ہم لوگ والد کی مدد کرنے لگے۔ اس طرح میری تعلیم کا ایک سال بے کارہوگیا۔کوہیر میں حال یہ تھا کہ میں نے اسکول کی لائبریری میں بچوں کی کہانیوں کی سبھی کتابیں پڑھ ڈالی تھیں۔ والد صاحب نے دیکھا کہ ہم لوگ کافی آوارہ گردی کررہے ہیں تو انہوں نے ایک سرکاری اسکول میں ساتویں جماعت میں میرا داخلہ کرادیا۔ یہاں میں نے دیکھا کہ ماحول اچھا نہیں تھا۔پھر بھی میں ساتویں کے امتحان میں پورے ڈسٹرک میں اول آیا۔
سٹی ہائی اسکول میں جب آئے تو یہاں نیاز احمد خاں اور سید علی برتر جیسے اساتذہ تھے۔ سید سمع الماجد‘ قادر اظہر‘ صادق نقوی ‘ ہم جماعت تھے۔ ایک اور ساتھی تھے الطاف حسین جن کو ہم الطاف حسین حالی کہہ کر پکارتے تھے۔ تقریباً 50برس کے بعد کچھ برس پہلے شکاگو سے ایک فون آیا اور فون کرنے والے نے کہا ’’ میں حالی بات کر رہا ہوں‘‘ اس طرح برسوں بعد ان سے ملاقات ہوئی ۔ ان دنوں حیدرآباد کا ماحول بہت اچھا تھا۔ ملک میں اتنی بڑی تبدیلی آنے اور پولیس ایکشن کے بعد بڑے پیمانے پر فسادات ہونے کے باوجود اسکول میں ہندو مسلم ٹیچروں کا رویہ مثالی تھا۔
تین چار سال بعد والد پھر سے واپس گاؤں چلے گئے ۔ چوں کہ والد نے والدہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی کرلی تھیں اور ہم لوگ اب آٹھ بھائی بہن تھے۔ ان کو محسوس ہوا کہ گاؤں کہ زمینات وغیرہ کو سنبھالنا چاہئے۔ گاؤں کے حالات اتنے خراب نہیں ہوئے تھے۔ لیکن پہلے جیسے بھی نہیں تھے۔ ہمارا مکان گاؤں میں سب سے اونچا تھا۔ بتاتے ہیں کہ پولیس ایکشن کے دوران جب گاؤں پر حملے ہورہے تھے کھمم پلی میں لوگ ہمارے گھر کی چھت پر بیٹھ کر نظر رکھتے تھے۔ شاید اسی لئے کچھ لوگوں نے اس کو توڑ دیا تھا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ فوجی اور کچھ مقامی لوگوں نے گاؤں کے مسلمانوں کو جمع کرکے ایک جگہ کھڑا کر کے سب کو قتل کرنے کی تیاری کر رکھی تھی۔ لیکن اچانک پڑوسی گاؤں کی پٹیل خاتون وہاں آئی اور انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ ’’ اگر ان کے ساتھ مہتاب پٹیل (والد) ہوتے تو ختم کرسکتے تھے۔ لیکن اگر یہ واقعہ ان کو معلوم ہوگیا تو وہ گاؤں والوں کو نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ اس طرح والد کو وہاں نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کی جان بچ گئی۔ ہم لوگ گاؤں واپس گئے تو الد کے ساتھ مل کر میں نے خود بھی مکان کی دیوار تعمیر کیں۔ پھر میں واپس تعلیم کے لئے حیدرآباد چلاآیا۔
والد کا قتل اور برا کتھا:
1953 ء میں جب میں نے میٹرک پاس کی تووالد صاحب کی خوشی قابل دید تھی۔ میں اپنے گاؤں کا پہلا میٹرک کامیاب تھا۔ والد صاحب کی تمنا تھی وہ مجھے گاؤں کا پہلا ڈاکٹر بھی بنائیں۔ میں ڈاکٹر بن بھی جاتا‘ لیکن انہیں دنوں ایک المناک واقعہ ہم پر گزرا والد فرقہ وارانہ سیاسی بازیگری کا شکار ہوگئے۔ انہیں ظہیر آباد کے راستے میں قتل کر دیا گیا۔ ان دنوں والد صاحب نے چنا ریڈی کی حمایت کی تھی۔ کچھ لوگ ان سے رنجش رکھتے تھے۔ والد ایک دن ظہیرآباد جارہے تھے۔ ساتھ میں والدہ اور دونوں بہنیں۔ والد کے ساتھ ایک گھوڑے پر اور والدہ کے ساتھ ایک گھوڑے پر تھیں۔ کمکول کے پاس اچانک والد کو روک لیا گیا اور ان کو 15/10لوگوں نے مل کر قتل کردیا۔میں نے خود اپنی آنکھوں سے خون میں لت پت ان کا جسم دیکھا تھا۔ وقت گزر گیا۔ وہاں جمع بھیڑمیں کسی نے قتل کرنے والوں میں سے ایک کو ختم کردیا لیکن والد کی موت کے کئی دن بعد اس علاقے میں بھیک مانگنے والے‘ جو برا کھتا گاتے ہیں‘ اس میں والد کے قتل کا واقعہ سنا گیا۔ پتہ نہیں وہ براکتھا کس نے لکھی آج تک بھی اس خاندان کے لوگ براکتھا میں وہ سارا واقعہ سناتے ہیں اس کا ایک ٹیپ ریکارڈ بھی ہمارے پاس موجودہے۔
والد کے انتقال کی وجہ سے میں اس سال تعلیم پر زیادہ دھیان نہیں دے سکا اور بی ایس سی میں فیل ہوگیا۔ اس سال بھائیوں کی تعلیم کے لئے میں ٹیوشن پڑھانے شروع کئے تھے۔ خیر اگلے سال میں نے بی ایس سی مکمل کرکے ایم ایس سی میں داخلہ لیا۔ ایم ایس سی میں داخلہ کا بھی بڑا دلچسپ قصہ ہے۔ ہم نے درخواست دے رکھی تھی۔ میرا نام لسٹ میں موجود ہے‘ لیکن میرے پاس فیس داخل کرنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ احمد علی نے مشورہ دیا کہ ہم مدد کے لئے اشتہار دیں گے۔ افضل گنج میں ممتاز ہوٹل پر بیٹھ کر ایک اشتہار بنایا اور رہنمائے دکن کے دفتر کی جانب نکل پڑے۔ راستے میں بارش ہوئی اور بھیگ گئے۔ اشتہار کا کاغذشیروانی کی جیب میں بھیگ چکا تھا۔ اخبار کی دفتر میں ہمارا حال دیکھ کر ایک صاحب نے بٹھایا‘ چائے پلائی اور اشتہار شائع کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ فیس کا انتظام ہوجائے گا۔ دوسرے دن جب پہنچے تو ایک صاحب نے احمد علی کی فیس دینے کی اطلاع دی، میرے لئے کوئی آگے نہیں آئے تھے۔ احمد علی اگر فیس داخل نہ بھی کریں تو ان کا داخلہ ختم نہیں ہوتا تھا لیکن میرا داخلہ ابھی ہونا تھا۔ تیسرے دن پھر میں اخبار کے دفتر پر پہنچااور وزیر سلطان سگریٹ فیاکٹری والوں نے فیس دینے کی اطلاع دی۔ ایم ایس سی مکمل کرنے کے بعد مجھے ملازمت مل گئی تھی‘ لیکن میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے علی گڑھ یونیورسٹی چلا گیا اور اس طرح میڈیکل ڈاکٹر تو نہیں بن سکا لیکن پی ایچ ڈی کی اور ڈاکٹر بن گیا۔ پی ایچ ڈی کے ساتھ اسی علی گڑھ یونیورسٹی میں ملازمت مل گئی تھی ‘ لیکن یہ ملازمت چھوڑ کر حیدرآباد آیا۔ آر آر ایل میں سائنٹفک آفیسر کی جائیداد خالی تھی۔ اتفاق سے یہاں ملازمت مل گئی۔
امریکہ کا رخ:
یہ وہ دن تھے جب زیادہ لوگ لندن کا رخ کررہے تھے۔ آرآر ایل میں اس وقت میری تنخواہ 700روپیہ تھی۔ امریکہ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشپ کے لئے درخواست دی اور اس طرح امریکہ چلا آیا۔ اس وقت امریکہ میں امیگریشن آسان تھا۔ باہر سے آئے طلباء کی عزت ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اگر ان یونیورسٹی کے فارن اسٹوڈنٹ ایڈوائزر اور ہوسٹ فیملی کے ایک رکن مجھے لینے ایرپورٹ پر آئے۔ باہر کے طلباء کو کچھ دن تک کوئی ایک خاندان مہمان بنا کر اپنے پاس رکھتا تھا۔
ہندوستانیوں کے طورپر وہاں گجراتی لیبر تھے اور پنجابی زمیندار تھے۔ ہوا یہ تھا کہ غیر امریکیوں کو وہاں بنک میں روپیہ پیسہ رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ 1930 ء کے دوران امریکہ کی معاشی حالت تباہ ہوئی تو وہاں پنجابیوں کے پاس گھروں میں کافی رقومات تھیں۔ اور انہوں نے نارتھ کیلی فورنیامیں امریکیوں سے زمینات خریدیں ۔ جہاں چاولوں کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے۔
اگر مسلمانوں کی بات کی جائے تو یہ کہوں گا کہ وہاں عرب‘ ہندوستان اور پاکستان سے آنے والوں نے اپنی پہچان مسلمان کے طورپر قائم رکھی۔ ورنہ ترکی سے آنے والے اپنے بچوں تک یہ شناخت نہیں بنا سکے۔
پہلی عیداور شیراوانی:
’اگر ان‘ اوبایو میں مَیں نے اپنی پہلی عید منائی۔ اس دن کے لئے میں نے شیروانی بنا رکھی تھی۔ ہم 8'7مسلمان تھے۔ شاید’ اگر ان‘ کی تاریخ میں وہ پہلی نماز تھی۔ مجھے اس دن کا واقعہ یاد ہے کہ شیروانی پہن کر جیب میں ایک گراسری کی دکان پر پہنچا تو اسٹور کے مالک نے بڑے غور سے دیکھا۔ شیروانی کو دیکھ کر اس نے کہا کہ ایسا لباس پہلے بھی کبھی دیکھا ہے۔اس نے بتایا کہ اس کے دادا ترکی سے آئے تھے۔ اس کو اب ان کا نام بھی یاد نہیں ہے۔
کئی ترک ڈاکٹروں سے میری ملاقات رہی وہ بھی اپنی شناخت باقی نہیں رکھ پائے تھے۔ عربوں کا لباس تو بدل گیا تھا مگر پرانے کھانے پینے کے آداب پاس ولحاظ ضرور باقی ہے۔ ابتدائی دور میں حیدرآباد کے مسلمان وہاں بہت کم تھے۔ لیکن بعد میں یہ تعداد بڑھ گئی ۔ خصوصاً حیدرآبادیوں نے وہاں مساجد کے بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ شکاگو میں کسی بھی بڑی مسجد کی تعمیر شروع کرنے والوں کے نام لئے جائیں تو ان میں کوئی نہ کوئی حیدرآبادی ضرور مل جائے گا۔
امریکہ اور ہندوستانی مسلمان:
مہاجرین اور پنجابیوں میں کبھی جمتی نہیں تھی‘ لیکن وہاں سب سے فعال کمیونٹی ہی رہی۔ امریکہ میں مسلمانوں کو جوڑنے خصوصاً پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں کو جوڑنے میں اردو کا اہم رول رہا۔ آئینے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوستانی ہند و امریکہ میں نہ صرف اعلیٰ عہدوں پر ہیں بلکہ ان کی معاشی حالت بھی کافی مضبوط ہے۔ ہندوؤں کے پاس جہاں بڑے بڑے بزنس ہیں وہیں مسلمانوں کے پاس پٹرول پمپ‘ چھوٹے موٹے اسٹور اور کچھ کمپیوٹر سافٹ وےئر کمپنیاں ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہندو پاک سے آنے والوں میں غیر قانونی طورپر رہنے والے لوگ بھی زیادہ ہیں۔ ان دنوں امریکہ میں ایسے لوگوں کے لئے زمین تنگ ہونے لگی ہے۔ خصوصاً11/9کے بعد امریکہ نے سختیاں بڑھادی ہیں۔ 11/9کے بعد جو سب سے بڑی تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اب مسجد بنانے تو رقومات دے سکتے ہیں‘ لیکن کسی ادارے کو چندادینا ان کے لئے خطرے سے خالی نہیں ہے ‘ خصوصاً وہ ادارہ اگر اسلام کے نام پر ہو۔ مسلمانوں کے بنک اکاؤنٹ چیک کئے جارہے ہیں۔ افغانستان ‘ فلسطین ‘ عراق ‘ بنگلہ دیش اور ہندوستان کے مختلف تعلیمی اداروں اور بچوں کی فلاح کے لئے مسلمانوں نے کافی مدد کی تھی۔ لیکن اب وہاں سے اس طرح کی مدد کافی مشکل ہے۔ سختیاں بڑھتی جارہی ہیں۔
مسلمان وہاں اس معاملے میں دونوں طرف سے پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ اگر امریکہ کے خلاف بولتے ہیں تو امریکی لوگوں کی نظر میں غداری کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور اگر خاموش رہتے ہیں تو باہر مسلمان ان کے بارے میں غلط تصور رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی آواز کچھ حد تک ضرور اٹھی ہے۔ اس میں کنسلٹیٹیوکمیٹی آف انڈین مسلم (CCM) کا اہم رول رہا.۔
اُردو مشاعرے
جیسا کہ میں نے کہا کہ اردو نے امریکہ میں مسلمانوں کو جوڑنے کا کام کیا ہے۔ ہماری ابتداء تو وہاں ایسے مشاعروں سے ہوئی جس میں ہم اردو دوست ایک جگہ ملتے اور جو کچھ دوسرے شاعروں کی شاعری یاد ہے سنا کر محظوظ ہوتے۔ مشاعروں کی سرگرمیوں میں زیادہ تر ہندوستانی اور خصوصاً حیدرآبادیوں کی دلچسپی زیادہ رہی۔ شکاگو میں امیر احمد خسروسوسائٹی بنائی گئی۔ اس میں حسن الدین احمد صاحب کے داماد حبیب الرین احمد سرگرم تھے۔ انہوں نے 1983 ء کے آس پاس ایک بڑا مشاعرہ کیا تھا ظ انصاری خاص طورپر اس میں شریک تھے۔ اس سے پہلے عزیز قیسی کے بھائی احمد خان نے مشاعرہ کیا تھا ۔ جس میں مینا قاضی ، کیفی اعظمی ‘ اختر الایمان ، علی سردار جعفری ‘واجد تبسم ‘ بیکل اتساہی اور عزیز قیسی نے پڑھاتھا۔ اسی طرح 1981 ء میں پاکستانی گروپ حمایت علی شاعر ‘ قتیل کلیم عاجز شریک تھے۔
شکاگو علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی المنائی ایسوسی ایشن 1987 ء میں بنی۔ اس سے پہلے واشنگٹن میں علی گڑھ اسوسی ایشن بنی تھی۔ کیلی فورنیا میں نیر آپا نے اردو مرکز انٹرنیشنل قائم کیا تھا۔ نیویارک میں حلقۂ فن ادب کا قیام حنیف اخگر نے کیا تھا۔ اسی طرح امریکہ کے چار اہم شہروں میں اردو کا ایک بڑا نیٹ ورک بن گیا اور 1988 ء میں انٹرنیشنل مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی گئی ‘جس میں مشاعرے بھی ہوئے اور ادبی محفلیں بھی۔ لوگوں کو ڈر ہے کہ اردو آنے والی نسلوں میں زندہ رہے گی یا نہیں ؟ لیکن اس کے تئیں بہت زیادہ فکر مندی کی ضرورت اس لئے بھی نہیں ہے کہ اب بھی شادی بیاہ کے ذریہ اور دوستی میں اردو کا رشتہ بنا ہوا ہے۔ ہمارے پوتے اور نواسے اردو سیکھ رہے ہیں۔
امریکی سماج میں سب سے بڑی خاص بات یہ ہے کہ وہاں آدمی بھیڑمیں رہ کر بھی تنہا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے تعلق بہت کم رکھتا ہے۔ وہاں گلی کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر دوسرے کونے میں رہنے والے کے بارے میں جانکاری حاصل نہیں کی جاسکتی‘ لیکن حیدرآباد میں یہ رشتے برابر باقی ہیں۔ محلے کے ایک کنارے پر کھڑے ہو کر پتہ پوچھنے پر کوئی نہ کوئی ضرور مل جاتا ہے جو منزل مقصود پر پہنچنے میں مدد کرے۔

Comments
Post a Comment