حمایت علی شاعر
حمایت علی شاعر
جنہوں نے حیدرآباد کے
مقبروں میں گزاری تھیں کئی راتیں
بر صغیر کی بہت ہی مشہور شخصیت حمایت علی شاعر کو گزرے اس
16 جلائی (2020)کو پورا ایک سال ہو رہا ہے۔ اردو ادب خصوصاً شاعری میں ان کا
بڑا نام تھا۔ ان کی پیدائش اورنگ آباد میں ہوئی تھی۔ اورنگ آباد سے
حیدرآباد، ممبئی اور پھر پاکستان سے کناڈا تک کے ان کی زندگی کے سفر میں اتفاق یہ
تھا کہ میرے لئے بھی ایک دن مختص تھا۔ مارچ 2007 کی ایک شام ان سے مولانا
آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی۔ سلام علیک کےبعد انہوں نے بتایا کہ وہ گنڈی
پیٹ کے راستے میں تارامتی بارہ دری میں رکے ہوئے ہیں۔ رات 9 بجے کے قریب لینڈ لائن
پر فون کیا، سوچا کہ وقت مل جائے تو رات میں ہی پہنچ جاؤنگا، لیکن وہ بہت تھکے
ہوئے تھے۔ صبح ملنے کے لئے راضی ہو گئے۔ یہ وہی وقت تھا جب میں مختلف
شخصیتوں سے مل کر دکن کی یادیں سمیٹ رہا تھاَ۔ اور پھر حمایت علی شاعر صاحب کے پاس
تو یادوں کا خزانہ تھا- جسے حاصل کرنے کےلئے مجھے صبح 7 بجے ہی تارامتی بارادری
میں ان کے کمرے پر پہنچنا تھا اور میں حاضر ہو گیا- کمرے میں کچھ دیر بات
چیت کے بعد ہم ریستراں میں چلے آئے۔ ناشتے کے دوران کچھ بات چیت ہوئی اور پھر
انہیں یاد آیا کہ انہیں اپنے ایک رشتہ دار کے گھر سعید آباد جانا ہے۔ خیر وہاں کا
پتہ حاصل کر میں وہاں بھی پہنچ گیا۔ اس طرح ان سے کچھ قستوں میں ہی سہی ڈھیر
ساری باتیں ہوئیں اور یادوں کا خزانہ بھی ہاتھ لگ گیا۔
پیش ہیں انہیں کی
زبانی کچھ باتیں کچھ یادیں۔ ایف ایم سلیم
یوں شروع ہوا
لکھنے لکھانے کا شوق
میری
پیدائش 14 جولائی 1926ء کو اورنگ آباد میں ہوئی۔ والد پولیس میں تھے۔ تین برس کا
تھا کہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔ تقریباً 7سال اسی محرومی میں گذر گئے ۔ دادی کے زور
دینے پر والد نے دوسری شادی کرلی۔ نئی ماں مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں ۔ انہوں نے کبھی سوتیلے پن کا احساس نہیں ہونے
دیا۔ لیکن اپنی والدہ کی محرومی کا احساس دل کے کسی گوشے میں ضرور رہا۔
ہائى
اسکول کے دنوں میں کچھ سوشلسٹ لوگوں سے دوستی ہوگئی تھی۔ چونکہ ان دنوں شرفاء کے
طبقے میں بادشاه پرستی بہت زیاده تھی اور بادشادہ کوظل الٰہی سےمخاطب کرنے کی بات
ہضم نہیں ہوتی تھی۔ ہمارے گھرانے میں ددھیال کے لوگ فوج اور پولیس میں تھے اور ننہیال کے لوگ مولوی اور قاضی تھے۔
کامریڈافتخار، کامریڈ حبیب اور بزرگ اخترالزماں ناصر اور کچھ غیر مسلم دوستوں
نےمل کرروہیلا گلی سے کچھ دور چوک میں ایک بند پڑی لائبریری کو صاف ستھرا کر کے
اپنی محفلوں کا مرکز بنالیا تھا۔ ان دنوں نیاز فتح پوری کا رسالہ 'نگار'آتاتھا، اس کو بڑی پابندی سے پڑھتے تھے۔ اور اقبال پہلے
سےہی سوچ کا ایک حصہ بنے ہوئے تھے۔
دیکھاجائے تومذہبی اور عملی وسعتوں میں ان دو شخصیات کا اہم رول رہا۔
والدکاتبادلہ
جالنا ہوگیا تھا۔ میں ایک ہاسٹل کے کمرے میں رہنے لگا تھا۔ علامہ اقیال اور
نیازفتح پوری کا اثر ذہن پر کچھ اس طرح پڑا کہ
لکھنےلکھانے کا شوق ہوا اور قلمی
رسالے نکالنےکی شروعات بھی۔ میں نے
بھی ایک رسالہ 'شراره' نکالنا شروع کیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرے اندر بڑی آگ بھری ہوئی
ہے۔ سوشلسٹ تحریک کا اثر بڑھنے لگا تھا۔ ان دنوں
بمبئی سے پارٹی کے اخبار آتے تھے ،جس کو ہم رات کے 12 بجے چھُپ کر تقسیم
کرتے تھے۔ کیوں کہ حیدرآباد ریاست میں ان
پر پابندی عائدتھی۔جب کامریڈ افتخار کو گرفتار کیا گیا تو میں نے ایک افسانہ لکھا
تھا ، جو بمبئی کے رسالہ نظام میں شائع
ہوا تھاَ، مانا کہ میں نے نام بدل کر افسانہ لکھا تھا، پھر بھی کسی طرح
والد صاحب کو پتہ چل گیا۔ وہ بہت
ناراض ہوئے ۔ ان حالات میں، میں نے میٹرک کا امتحان لکھا اور فیل ہو گیا۔
والد کی ناراضگی اور بڑھی۔
نئے
پل کی ریلنگ سے بیچلر کوارٹر تک
والد کی ناراضگی کے بعد گھرسے ایک ٹین کاڈبہ لے کر میں
نکل پڑا۔ ٹرین سے اتر کر سیدھے حیدرآباد میں عابد روڈ پر واقع ایک بک اسٹال پر ٹین کا ڈبہ رکھا
اور شہر میں بھٹکنے لگا۔ میری تخلیقات
یہاں آنے سے پہلے بچوں کے رسالے 'تارے' میں شائع ہوئی تھیں۔ میں نے لوگوں سے
ملناشروع کیا۔محفلوں میں جاتا تھا۔ رات میں
سونے کا مسئلہ تھا۔ بک ڈپو کے اوپر ایک مسجد تھی-
اس میں عشاء کی نماز کے بعدکچھ دیر قرآن پڑھ کر وہیں سوجاتا۔ قرآن شریف پڑھنا میری ضروت تھی۔ ایک دن
امام نے سوتے ہوئے دیکھ لیا اور مجھے مسجد سے نکال دیا۔ ساری رات بھٹکتا رہا ۔ کسی قبر کے پاس بیٹھے بیٹھے نیند
آ گئی۔ اس کے بعد کئی راتیں مقبروں کے پاس ہی
گزریں۔
گھرسے نکلتے وقت دادی نے کچھ پیسے دیئے تھے اور میں نے
ماں سے بھی کچھ پیسے لئے تھے۔ وہ پیسے تقرباً ختم ہوگئے تھے۔ ایک دن
گھوم گھوم کر جب تھک گیا تو نئے پل کی ریلنگ سے سر ٹکا کر بیٹھ گیا۔ شاید مجھے
نیند لگ گئی تھی - کسی نے مجھے جگا دیا - وہ مسلم ضیائی تھے'تارے 'کے ایڈیٹر۔ حیدرآباد آنے کے بعد ایک دو محفلوں میں ان سے
ملاقات ہوئی تھی۔ ان کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ میں حیدرآبادمیں بے گھر ہوں۔
انہوں نے جگا کر پوچھا، "یہاں کیوں بیٹھے ہو، اگر تھوڑی سی بھی کروٹ بدلتے تو، پل سےنیچے گر جاتے۔ چلو میں تمہیں تمہارے گھر
چھوڑ دوں۔''
میں نے ان کو بتایا کہ اگر گھر ہوتا تو میں یہاں
کیوں بیٹھتا۔ وہ بڑی شفقت سے مجھے اپنے ساتھ بیچلرکوارٹر لے گئے۔ وہیں پر ایک کمرے
میں ان کا دفتر تھا۔ اس میں اختر حسن کے "پیام" کا بھی دفتر تھا۔ انہوں
نے مجھے رات میں 'تارے' کے دفتر میں سونے کی اجازت دے دی اورمیں دن میں ان کا ہاتھ بٹانے لگا تھا۔کچھ
دنوں بعد تارے کے ساتھ ساتھ روزنامہ اخبار 'جناح' میں بھی لکھنا شروع کیا تھا۔
وہ
ایک لڑکی
اسکول
کے زمانے میں، میں ہر سال چھٹیوں میں ننہیال جاتا تھا۔ سارے رشتہ دارجمع ہوجاتے ۔ نوعمری کا زمانہ تھا۔ خاندان میں مشہور
تھا کہ میں شریر ہوں۔ رسالوں میں میرے افسانےچھپتے ہیں۔ خاندان کی کئی لڑکیاں مجھ
سے بات کرتی تھیں، لیکن ایک لڑکی مجھ سے دور رہتی تھی اور میری طبعیت تھی کہ اسی
کی طرف کھنچتی تھی۔ اس کوبھی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور اس کی کچھ تخلیقات 'تارے'
میں چھپ چکی تھیں۔ ایک دن شاید پورے چاند کی رات تھی ۔ننہیال گاؤں لاؤسنگوی دودھا ندی کے کنارے تھا۔ اس رات میں دیر تک ندی
کے پاس ٹہل کر گھر آیا ۔ سب بچے اور مردانہ آنگن میں سورہا تھا اور لڑکیاں دالان
میں سورہی تھیں۔ میں پانی پینے کے لئے رنجن کے پاس گیا۔ اچانک نظر دالان میں سوئی اس
لڑکی پر پڑی۔ وہ کچھ اس انداز سے سوئی تھی کہ کسی جھروکے سے چاندنی اس کے چہرے پر
پڑرہی تھی۔ روشنی میں کسی کی نظر مجھ پر
نہ پڑے اس لئے میں اندھیرے میں کھڑا ہوکر دیر تک اس کےچہرے کو دیکھتا رہا۔ واقعہ یہ ہوا کہ اچانک
ہوا کے ایک جھونکے سے اس کے کے بال چہرے پر آگئے۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی۔ پتہ
نہیں مجھے کیا ہوگیا کہ میں چہرےسےبال ہٹانے کے لئے اس کے نزدیک جا پہنچا۔ میں نے
انھیں ہٹانے کے لئے جیسےہی ہاتھ آگے بڑھائے۔ اس کی آ نکھ کھل گئی۔ وہ چیخنے ہی والی تھی کہ میں نے ہاتھ جوڑ دیئے، میں تھرتھرکانپنے لگا۔ یہ بتا کرکہ میں وہاں کیوں آیا وہ خوف زدہ
غصے کے عالم میں حقارت سے مجھے دیکھنے لگی۔
میں ندامت کے مارے پھرسے ندی کی طرف چلا گیا۔دیرتک
وہاں بیٹھا رہا۔ اس سےآنکھ ملانے کی ہمت نہ تھی۔ جب بھی اس کے پاس سے گزرتا یا اس پر نظر پڑتی میں لوگوں کی نظریں بچا کر ہاتھ جوڑ لیتا اور
کہتا کہ خدا کےلئے معاف کردو۔ وہ مجھ کو اس حالت میں دیکھ کر ایک آدھ بار مسکرا
بھی اٹھی۔ اس حالت میں میرا وہاں رہنا مشکل تھا۔ اور میں نے گھر کے لوگوں سے کہا
کہ میں واپس جا رہا ہوں۔ گھر کے سب لوگ چونک
گئے۔ والدہ کے انتقال کے بعدننہیال سے
مجھے زیادہ لاڈ ومحبت ملنے لگی تھی۔ سب نے پوچھا کہ چھٹیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔
کیوں جارہے ہو؟۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ جانے سے کچھ دیر پہلے میں جب پانی
پینے کےلئے رنجن کے پاس پہنچاتو وہ لڑکی وہاں آئی اور ایک چٹھی ڈال کر چلی گئی۔ اس
پر صرف دوسطریں لکھی ہوئی تھیں۔
. ایساجو سمجھتے تو کبھی بات نہ کرتے
واللہ
کہ ہم تم سے ملاقات نہ کرتے
یہ کاغذ میرے پاس برسوں محفوظ رہا۔ اور اللہ نے یہ کیا
کہ میں نےاسی لڑکی سے شادی کی ۔ہوا یوں
کہ 'تارے' کے دفتر میں ایک دن ڈاک دیکھ رہا تھا کہ ایک تحریر جانی پہچانی لگی ۔ جس
کی دوسطریں میرے پاس محفوظ تھیں۔ یہ کوئی مضمون تھا جو 'تارے' کےلئے لکھا ہوا تھا۔
میں نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اس لڑکی کےلئے رشتے تلاش کئے جارہے ہیں۔ میں فورأ
اورنگ آباد گیا اور کسی طرح ماں سے کہہ کر
والدکو راضی کر نے کی کوشش کی۔ وہ بہت غصہ
ہو گئے۔ کہنے لگے کہ پڑھا نہ لکھا، شادی
کرے گا۔ میں نے وہاں سے واپس آ کر ایک خظ اس لڑکی کے بہنوئی منتخب الدین صاحب کو لکھا، جو میرے
رشتہ دار بھی ہوتے تھے۔ خط میں صرف اتنا لکھا ہوا تھا کہ اگر میری شادی اس لڑکی سے
نہیں ہوئی تو وہ مجھے زندہ نہیں دیکھ پائیں گے ۔ انہوں نے والد سے بات کی اور یہ خط کام آیا اور انہوں نے والد صاحب کو سمجھایا
- انہیں دنوں مرزاظفر حسین صاحب کے کہنے پردکن ریڈیو میں میری ملازمت شروع ہوئی۔ ادھرمسلم
ضیائی صاحب لڑکی کے والد کو جانتے تھے۔ لڑکی
کا خاندان ان دنوں لاتور میں رہنے لگا تھا۔ضیائی صاحب نے
انہیں حیدرآباد بلایا اور وہ جوبلی سرائے میں آ کرر کے اور یہیں پر منگنی کی رسم ہوئی اور 14 فروری 1949 کو میری شادی اس
لڑکی سے ہوگئی۔ جس کی لکھی دو سطریں برسوں
تک میری جیب میں محفوظ رہیں۔
جب ہاکر بن کر آخبار بیچے
پولیس
ایکشن کے بعدمختلف سرکاری کاموں سے ملازموں کی تعدادکم ہونے لگی تھی۔ میری نوکری بھی
1950ء میں ختم کردی گئی۔ نوکری چھوٹنے کا جہاں دکھ تھا، و ہیں غصہ بھی تھا۔ میں نے
سیدھا عابڈس آکرسیکل پراخبار بیچنا شروع کردیا۔ یہ خبر تقریباً پورےاخباروں میں سرخیوں
میں شائع ہوئی تھی۔ پرواز ویکلی نے تو پورے شاعروں اور ادیبوں کے تاثرات کے ساتھ
ایک صفحہ شائع کیا تھا کہ کس طرح حمایت علی کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ ایک اخبار نے
لکھا تھا کہ آزاد ہندوستان میں اقبال اور ٹیگور کی روح اخبار بیچ رہی ہے۔ یہاں سے میں بیگم اور بیٹی کے ساتھ
اورنگ آباد چلا گیا اور وہاں سے بمبئی۔
ان دنوں بمبئی میں ساحر اپنی جگہ بنا چکے
تھے۔ کچھ اور لوگوں سے بھی میری ملاقات تھی
۔ حیدرآباد کے ایک پروفیسرکی بیٹی اوشا بھی وہاں تھی۔ وہ بھی پہلے دکن ریڈیو میں نیوز
ریڈر تھی۔ وہ اپٹا (IPTA (کے ساتھ کام کررہی تھی ۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک ڈرامہ اسٹیج کررہی ہے۔ اس نے ایک بھجن لکھنے کی خواہش کی۔
میں نے تب تک ایک حمد بھی نہیں لکھی تھی، کیونکہ حمدلکھنے کےلئے حوصلہ چا ہئے۔ اس سے کہا کہ میں بھجن کیسے لکھ سکتا ہوں؟ لیکن اس نے کہا کہ یہ مذہبی نہیں سیاسی بھجن ہوگا۔ دنیا کے حالات اچھےنہیں تھے۔ ہر طرف کچھ
نہ کچھ تحریکیں چل رہی تھیں۔ تیسری جنگ عظیم کے خدشے ابھررہے تھے۔ اس کے خلاف ایک
دستخطی مہم بھی چل رہی تھی۔ اوشا نے کہا
کہ دستخطی بینر کے سامنے یہ ڈرامہ پیش ہوگا۔ اور ڈرامے کی ابتداءبھجن سے ہوگی۔ڈرامےکی
خبر سی آئی ڈی کو ملی۔ اوشا اور دوسرے لوگ روپوش ہوگئے ۔ ڈرامے کے ساتھ میرانام
ظاہر نہیں کیا گیا تھا، لیکن ڈر تھا کہ کوئی
بتادے گا تو سی آئی ڈی پکڑ لے گی ۔ مسلم ضیائی بھی بمبئی آگئے تھے۔ کرشن چندر کے
گھر پر سب جمع ہوجاتے تھے۔ انہیں دنوں میں نے انوملک کے دادا کے اسٹنٹ حسن لال
بھگت رام کی ایک فلم کے لئے گیت لکھا۔ ان کی
اس شرط پر کہ اسکرین پر نام نہیں ہوگا اور 200 روپے دئے جائیں گے۔ میں نے مان لیا۔
وہی گانا بہت ہٹ ہوگیا۔ لیکن میں سی آئی ڈی کے ڈر سے پہلے اورنگ آباد اور بعد میں
والد کے کہنے پرکھوکھرا پار کے راستے ٹرین سے پاکستان چلا گیا۔ وہاں پر قائد اعظم
کی مزار کے اطراف جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ وہیں جھیل کے قریب گرو مندر کے پاس
حیدر آباد کالونی بھی تھی۔ میں نے بھی 50روپے میں ایک جھونپیڑی خریدی۔ مرزا ظفر
خان صاحب بھی کراچی آ گئے تھے۔ میرے آنے کی خبر ملی تو انہوں نے مجھے بلایا اور ریڈیو پر ملازمت
مل گئی۔ ابراہیم جلیس صاحب وہاں امروز اخبار میں کام کرنے لگے تھے۔ ان دنوں حیدر
آباد(سنده) ریڈ یو نیا کھلا تھا اور وہاں درخواست داخل کی اور پھر
وہاں ملازمت بھی مل گئی اور رہنے کے لئے ایک
اچھا گھر بھی۔ اس طرح حیدر آباد(دکن) سے حیدرآباد (سندھ) کا سفر طے ہوا۔
ریڈیو،
فلم اور پروفیسر
حیدر
آباد(سندھ) میں رہتے ہوئے مشاعرے میں میری ایک نظم' ان کہی' کافی مشہور ہوئی تھی۔
لاہور میں فلمیں بننے لگیں تھیں۔ گورکھ پورسے آئے ایک میوزک ڈائکٹرکر خلیل احمد 'آنچل'
فلم کا میوزک دے رہے تھے۔ فلم کے ہدایت کار حیدر آبادی ( الحامد ) تھے۔ کہانی ابراہیم
جلیس نے لکھی تھی۔ مجھے ایک نغمہ لکھنے کے
لئے کہا گیا۔ فلم 1962ء میں ریلیز ہوئی
اور اس نغمے کے لئے مجھے پہلی ہی فلم پر نگار ایوارڈ ملا۔ اس کے بعد دوسری فلم 'دامن
'کے گیت لکھے۔ اس کے بھی مشہورنغمےکے لئے پھر نگار ایوارڈ ملا۔ تقریباً چار برس تک
سب سے اچھے نغمےکےلئے نگار ایوارڈمجھے ملتے رہے۔ میں نے سوچا میں خودفلم کیوں نہ بناؤں۔
پہلی قلم 'لوری' بنائی۔ احمد ندیم قاسمی نے اس کےمکالمے لکھے۔ حیدرآباد سندھ میں
رہتے ہوئے میرے ایک ڈرامے میں محمدعلی نے کام کیا تھا۔ وہ اب فلموں میں کام کرنے
لگا تھا۔ اس کو لے کر فلم بنائی اور فلم ہٹ رہی۔ دوسری فلم 'اندھیرے اجالے' نے گولڈن
جوبلی منائی۔ 1965ءکی لڑائی شروع ہوئی اور 1971ء تک پاکستان ٹوٹ گیا۔ ان دنوں میں فلم
'گڑیا 'بنانے میں مصروف تھا۔ پاکستانی فلموں کا ایک بڑا بازار اب بنگلہ دیش بن چکا
تھا اور اس لٖڑائی سے فلم انڈسٹری کو بڑے نقصان
کے دور سے گزرنا پڑا۔ اور پھر میں نے بهی فلمی دنیا چھوڑ دی۔
فلمی
دنیا چھوڑنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ محمد علی نے زیبا سے شادی کر لی تھی۔ اس کے چرچے گھر تک پہنچ گئے تھے۔ بچے بڑے ہونے
لگے تھے۔ بیگم نے کہا کہ میں فلمیں چھوڑ
کیوں نہیں دیتا۔ اسی بات پر فلم انڈسٹری چھوڑ دی۔ بمبئ سے اورنگ
آباد آنے کے بعد والد کے کہنے پر میں نے میٹرک کا ایک پر چہ لکھا اور پاکستان چلا گیا
تھا۔ وہاں جانے کے بعد پتہ چلا کہ میں پاس ہو گیا ہوں۔ خط لکھ کر صداقت نامہ
منگوایا ۔ والد نے کہا تھا کہ جب تک تعلیم حاصل نہیں کرو گے کامیاب نہیں ہو گے۔
میں نے حیدرآباد سندھ میں رہتے ہوئے ایک ایوننگ کالج سے تعلیم جاری رکھی اور ایم
اے کا امتحان کامیاب کیا۔ تعلیم سے یہ ہوا
کہ میں نے فلمی دنیا چھوڑ کر سندھ یونیورسٹی
میں ملازمت حاصل کر لی اور پروفیسر بن
گیا-
بچوں
کے نام
میرےبچوں کے نام پر اکژ لوگ چونک جاتے ہیں۔ جب
رکھے گئے تھے تب تو لوگ کہتے تھے کہ کیا نام ایسے
ر کھے جاتے ہیں۔ روشن خیال، اوج کمال،ظل جمال ،بلند اقبال ان ناموں کے پیچھے ایک
خاص وجہ ہے۔ پاکستان میں شیعہ سنی کے اختلا فات بڑھتے جارہے تھے۔ میں سید تھا۔
حمایت علی نام اور مرثیہ پڑھنے کی وجہ سے لوگ مجھے شیعہ
سمجھنے لگے تھے اس لئے میں نے سوچا کہ بچوں کے نام کچھ اس طرح رکھوں جس سے وہ ان
اختلافات کا حصہ نہ بنیں۔
آج
جب میں گزرے ہوئے لمحات کے بارے میں سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ کافی کچھ گزر
گیا۔ تقسیم کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت ابتدائی دنوں میں بڑی عجیب تھی۔
ایک گوشے میں یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ جب آپ کو ایک ملک دے دیا گیا ہے تو پھر آپ
یہاں کیوں رہتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے حالات بدلتے گئے۔
جہاں
تک دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کی بات ہے۔ خصوصا مسلمانوں کے خاندانی رشتے تو
قائم ہیں۔ آپسی شادیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ میرے والدین یہاں رہے۔ بھائی بہن یہیں ہیں اور میں 1952 سے اب تک کئی بار
ہندوستان آ چکا ہوں۔ ابتدائی دنوں میں جب
میں کراچی میں تھا۔ یہ شہر مہاجروں سے بھرا ہوا تھا۔ سندھی علاقہ ہونے کے
باوجودلوگ اردو بولتے تھے۔ حیدرآباد (سندھ )میں رہتے ہوئے بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ
جو چان رہتا ہے کہ جو جہاں رہتا ہے، وہاں
کےتئیں ایماندار ہونا چاہئے۔ وطن پرستی بنیادی شرط ہے۔ چاہے ہندوستانی ہو یا
پاکستانی۔
( یہ انٹریو
روز نامہ اعتماد میں 18مارچ
2007 کو شائع ہوا تھا، جبکہ بعد میں کئ اور رسالوں نے اسے
ڈائجسٹ کیا)۔
حمایت علی شاعر
جنہوں نے حیدرآباد کے
مقبروں میں گزاری تھیں کئی راتیں
بر صغیر کی بہت ہی مشہور شخصیت حمایت علی شاعر کو گزرے اس
16 جلائی (2020)کو پورا ایک سال ہو رہا ہے۔ اردو ادب خصوصاً شاعری میں ان کا
بڑا نام تھا۔ ان کی پیدائش اورنگ آباد میں ہوئی تھی۔ اورنگ آباد سے
حیدرآباد، ممبئی اور پھر پاکستان سے کناڈا تک کے ان کی زندگی کے سفر میں اتفاق یہ
تھا کہ میرے لئے بھی ایک دن مختص تھا۔ مارچ 2007 کی ایک شام ان سے مولانا
آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی۔ سلام علیک کےبعد انہوں نے بتایا کہ وہ گنڈی
پیٹ کے راستے میں تارامتی بارہ دری میں رکے ہوئے ہیں۔ رات 9 بجے کے قریب لینڈ لائن
پر فون کیا، سوچا کہ وقت مل جائے تو رات میں ہی پہنچ جاؤنگا، لیکن وہ بہت تھکے
ہوئے تھے۔ صبح ملنے کے لئے راضی ہو گئے۔ یہ وہی وقت تھا جب میں مختلف
شخصیتوں سے مل کر دکن کی یادیں سمیٹ رہا تھاَ۔ اور پھر حمایت علی شاعر صاحب کے پاس
تو یادوں کا خزانہ تھا- جسے حاصل کرنے کےلئے مجھے صبح 7 بجے ہی تارامتی بارادری
میں ان کے کمرے پر پہنچنا تھا اور میں حاضر ہو گیا- کمرے میں کچھ دیر بات
چیت کے بعد ہم ریستراں میں چلے آئے۔ ناشتے کے دوران کچھ بات چیت ہوئی اور پھر
انہیں یاد آیا کہ انہیں اپنے ایک رشتہ دار کے گھر سعید آباد جانا ہے۔ خیر وہاں کا
پتہ حاصل کر میں وہاں بھی پہنچ گیا۔ اس طرح ان سے کچھ قستوں میں ہی سہی ڈھیر
ساری باتیں ہوئیں اور یادوں کا خزانہ بھی ہاتھ لگ گیا۔
پیش ہیں انہیں کی
زبانی کچھ باتیں کچھ یادیں۔ ایف ایم سلیم
یوں شروع ہوا
لکھنے لکھانے کا شوق
میری
پیدائش 14 جولائی 1926ء کو اورنگ آباد میں ہوئی۔ والد پولیس میں تھے۔ تین برس کا
تھا کہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔ تقریباً 7سال اسی محرومی میں گذر گئے ۔ دادی کے زور
دینے پر والد نے دوسری شادی کرلی۔ نئی ماں مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں ۔ انہوں نے کبھی سوتیلے پن کا احساس نہیں ہونے
دیا۔ لیکن اپنی والدہ کی محرومی کا احساس دل کے کسی گوشے میں ضرور رہا۔
ہائى
اسکول کے دنوں میں کچھ سوشلسٹ لوگوں سے دوستی ہوگئی تھی۔ چونکہ ان دنوں شرفاء کے
طبقے میں بادشاه پرستی بہت زیاده تھی اور بادشادہ کوظل الٰہی سےمخاطب کرنے کی بات
ہضم نہیں ہوتی تھی۔ ہمارے گھرانے میں ددھیال کے لوگ فوج اور پولیس میں تھے اور ننہیال کے لوگ مولوی اور قاضی تھے۔
کامریڈافتخار، کامریڈ حبیب اور بزرگ اخترالزماں ناصر اور کچھ غیر مسلم دوستوں
نےمل کرروہیلا گلی سے کچھ دور چوک میں ایک بند پڑی لائبریری کو صاف ستھرا کر کے
اپنی محفلوں کا مرکز بنالیا تھا۔ ان دنوں نیاز فتح پوری کا رسالہ 'نگار'آتاتھا، اس کو بڑی پابندی سے پڑھتے تھے۔ اور اقبال پہلے
سےہی سوچ کا ایک حصہ بنے ہوئے تھے۔
دیکھاجائے تومذہبی اور عملی وسعتوں میں ان دو شخصیات کا اہم رول رہا۔
والدکاتبادلہ
جالنا ہوگیا تھا۔ میں ایک ہاسٹل کے کمرے میں رہنے لگا تھا۔ علامہ اقیال اور
نیازفتح پوری کا اثر ذہن پر کچھ اس طرح پڑا کہ
لکھنےلکھانے کا شوق ہوا اور قلمی
رسالے نکالنےکی شروعات بھی۔ میں نے
بھی ایک رسالہ 'شراره' نکالنا شروع کیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میرے اندر بڑی آگ بھری ہوئی
ہے۔ سوشلسٹ تحریک کا اثر بڑھنے لگا تھا۔ ان دنوں
بمبئی سے پارٹی کے اخبار آتے تھے ،جس کو ہم رات کے 12 بجے چھُپ کر تقسیم
کرتے تھے۔ کیوں کہ حیدرآباد ریاست میں ان
پر پابندی عائدتھی۔جب کامریڈ افتخار کو گرفتار کیا گیا تو میں نے ایک افسانہ لکھا
تھا ، جو بمبئی کے رسالہ نظام میں شائع
ہوا تھاَ، مانا کہ میں نے نام بدل کر افسانہ لکھا تھا، پھر بھی کسی طرح
والد صاحب کو پتہ چل گیا۔ وہ بہت
ناراض ہوئے ۔ ان حالات میں، میں نے میٹرک کا امتحان لکھا اور فیل ہو گیا۔
والد کی ناراضگی اور بڑھی۔
نئے
پل کی ریلنگ سے بیچلر کوارٹر تک
والد کی ناراضگی کے بعد گھرسے ایک ٹین کاڈبہ لے کر میں
نکل پڑا۔ ٹرین سے اتر کر سیدھے حیدرآباد میں عابد روڈ پر واقع ایک بک اسٹال پر ٹین کا ڈبہ رکھا
اور شہر میں بھٹکنے لگا۔ میری تخلیقات
یہاں آنے سے پہلے بچوں کے رسالے 'تارے' میں شائع ہوئی تھیں۔ میں نے لوگوں سے
ملناشروع کیا۔محفلوں میں جاتا تھا۔ رات میں
سونے کا مسئلہ تھا۔ بک ڈپو کے اوپر ایک مسجد تھی-
اس میں عشاء کی نماز کے بعدکچھ دیر قرآن پڑھ کر وہیں سوجاتا۔ قرآن شریف پڑھنا میری ضروت تھی۔ ایک دن
امام نے سوتے ہوئے دیکھ لیا اور مجھے مسجد سے نکال دیا۔ ساری رات بھٹکتا رہا ۔ کسی قبر کے پاس بیٹھے بیٹھے نیند
آ گئی۔ اس کے بعد کئی راتیں مقبروں کے پاس ہی
گزریں۔
گھرسے نکلتے وقت دادی نے کچھ پیسے دیئے تھے اور میں نے
ماں سے بھی کچھ پیسے لئے تھے۔ وہ پیسے تقرباً ختم ہوگئے تھے۔ ایک دن
گھوم گھوم کر جب تھک گیا تو نئے پل کی ریلنگ سے سر ٹکا کر بیٹھ گیا۔ شاید مجھے
نیند لگ گئی تھی - کسی نے مجھے جگا دیا - وہ مسلم ضیائی تھے'تارے 'کے ایڈیٹر۔ حیدرآباد آنے کے بعد ایک دو محفلوں میں ان سے
ملاقات ہوئی تھی۔ ان کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ میں حیدرآبادمیں بے گھر ہوں۔
انہوں نے جگا کر پوچھا، "یہاں کیوں بیٹھے ہو، اگر تھوڑی سی بھی کروٹ بدلتے تو، پل سےنیچے گر جاتے۔ چلو میں تمہیں تمہارے گھر
چھوڑ دوں۔''
میں نے ان کو بتایا کہ اگر گھر ہوتا تو میں یہاں
کیوں بیٹھتا۔ وہ بڑی شفقت سے مجھے اپنے ساتھ بیچلرکوارٹر لے گئے۔ وہیں پر ایک کمرے
میں ان کا دفتر تھا۔ اس میں اختر حسن کے "پیام" کا بھی دفتر تھا۔ انہوں
نے مجھے رات میں 'تارے' کے دفتر میں سونے کی اجازت دے دی اورمیں دن میں ان کا ہاتھ بٹانے لگا تھا۔کچھ
دنوں بعد تارے کے ساتھ ساتھ روزنامہ اخبار 'جناح' میں بھی لکھنا شروع کیا تھا۔
وہ
ایک لڑکی
اسکول
کے زمانے میں، میں ہر سال چھٹیوں میں ننہیال جاتا تھا۔ سارے رشتہ دارجمع ہوجاتے ۔ نوعمری کا زمانہ تھا۔ خاندان میں مشہور
تھا کہ میں شریر ہوں۔ رسالوں میں میرے افسانےچھپتے ہیں۔ خاندان کی کئی لڑکیاں مجھ
سے بات کرتی تھیں، لیکن ایک لڑکی مجھ سے دور رہتی تھی اور میری طبعیت تھی کہ اسی
کی طرف کھنچتی تھی۔ اس کوبھی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور اس کی کچھ تخلیقات 'تارے'
میں چھپ چکی تھیں۔ ایک دن شاید پورے چاند کی رات تھی ۔ننہیال گاؤں لاؤسنگوی دودھا ندی کے کنارے تھا۔ اس رات میں دیر تک ندی
کے پاس ٹہل کر گھر آیا ۔ سب بچے اور مردانہ آنگن میں سورہا تھا اور لڑکیاں دالان
میں سورہی تھیں۔ میں پانی پینے کے لئے رنجن کے پاس گیا۔ اچانک نظر دالان میں سوئی اس
لڑکی پر پڑی۔ وہ کچھ اس انداز سے سوئی تھی کہ کسی جھروکے سے چاندنی اس کے چہرے پر
پڑرہی تھی۔ روشنی میں کسی کی نظر مجھ پر
نہ پڑے اس لئے میں اندھیرے میں کھڑا ہوکر دیر تک اس کےچہرے کو دیکھتا رہا۔ واقعہ یہ ہوا کہ اچانک
ہوا کے ایک جھونکے سے اس کے کے بال چہرے پر آگئے۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی۔ پتہ
نہیں مجھے کیا ہوگیا کہ میں چہرےسےبال ہٹانے کے لئے اس کے نزدیک جا پہنچا۔ میں نے
انھیں ہٹانے کے لئے جیسےہی ہاتھ آگے بڑھائے۔ اس کی آ نکھ کھل گئی۔ وہ چیخنے ہی والی تھی کہ میں نے ہاتھ جوڑ دیئے، میں تھرتھرکانپنے لگا۔ یہ بتا کرکہ میں وہاں کیوں آیا وہ خوف زدہ
غصے کے عالم میں حقارت سے مجھے دیکھنے لگی۔
میں ندامت کے مارے پھرسے ندی کی طرف چلا گیا۔دیرتک
وہاں بیٹھا رہا۔ اس سےآنکھ ملانے کی ہمت نہ تھی۔ جب بھی اس کے پاس سے گزرتا یا اس پر نظر پڑتی میں لوگوں کی نظریں بچا کر ہاتھ جوڑ لیتا اور
کہتا کہ خدا کےلئے معاف کردو۔ وہ مجھ کو اس حالت میں دیکھ کر ایک آدھ بار مسکرا
بھی اٹھی۔ اس حالت میں میرا وہاں رہنا مشکل تھا۔ اور میں نے گھر کے لوگوں سے کہا
کہ میں واپس جا رہا ہوں۔ گھر کے سب لوگ چونک
گئے۔ والدہ کے انتقال کے بعدننہیال سے
مجھے زیادہ لاڈ ومحبت ملنے لگی تھی۔ سب نے پوچھا کہ چھٹیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔
کیوں جارہے ہو؟۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ جانے سے کچھ دیر پہلے میں جب پانی
پینے کےلئے رنجن کے پاس پہنچاتو وہ لڑکی وہاں آئی اور ایک چٹھی ڈال کر چلی گئی۔ اس
پر صرف دوسطریں لکھی ہوئی تھیں۔
. ایساجو سمجھتے تو کبھی بات نہ کرتے
واللہ
کہ ہم تم سے ملاقات نہ کرتے
یہ کاغذ میرے پاس برسوں محفوظ رہا۔ اور اللہ نے یہ کیا
کہ میں نےاسی لڑکی سے شادی کی ۔ہوا یوں
کہ 'تارے' کے دفتر میں ایک دن ڈاک دیکھ رہا تھا کہ ایک تحریر جانی پہچانی لگی ۔ جس
کی دوسطریں میرے پاس محفوظ تھیں۔ یہ کوئی مضمون تھا جو 'تارے' کےلئے لکھا ہوا تھا۔
میں نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اس لڑکی کےلئے رشتے تلاش کئے جارہے ہیں۔ میں فورأ
اورنگ آباد گیا اور کسی طرح ماں سے کہہ کر
والدکو راضی کر نے کی کوشش کی۔ وہ بہت غصہ
ہو گئے۔ کہنے لگے کہ پڑھا نہ لکھا، شادی
کرے گا۔ میں نے وہاں سے واپس آ کر ایک خظ اس لڑکی کے بہنوئی منتخب الدین صاحب کو لکھا، جو میرے
رشتہ دار بھی ہوتے تھے۔ خط میں صرف اتنا لکھا ہوا تھا کہ اگر میری شادی اس لڑکی سے
نہیں ہوئی تو وہ مجھے زندہ نہیں دیکھ پائیں گے ۔ انہوں نے والد سے بات کی اور یہ خط کام آیا اور انہوں نے والد صاحب کو سمجھایا
- انہیں دنوں مرزاظفر حسین صاحب کے کہنے پردکن ریڈیو میں میری ملازمت شروع ہوئی۔ ادھرمسلم
ضیائی صاحب لڑکی کے والد کو جانتے تھے۔ لڑکی
کا خاندان ان دنوں لاتور میں رہنے لگا تھا۔ضیائی صاحب نے
انہیں حیدرآباد بلایا اور وہ جوبلی سرائے میں آ کرر کے اور یہیں پر منگنی کی رسم ہوئی اور 14 فروری 1949 کو میری شادی اس
لڑکی سے ہوگئی۔ جس کی لکھی دو سطریں برسوں
تک میری جیب میں محفوظ رہیں۔
جب ہاکر بن کر آخبار بیچے
پولیس
ایکشن کے بعدمختلف سرکاری کاموں سے ملازموں کی تعدادکم ہونے لگی تھی۔ میری نوکری بھی
1950ء میں ختم کردی گئی۔ نوکری چھوٹنے کا جہاں دکھ تھا، و ہیں غصہ بھی تھا۔ میں نے
سیدھا عابڈس آکرسیکل پراخبار بیچنا شروع کردیا۔ یہ خبر تقریباً پورےاخباروں میں سرخیوں
میں شائع ہوئی تھی۔ پرواز ویکلی نے تو پورے شاعروں اور ادیبوں کے تاثرات کے ساتھ
ایک صفحہ شائع کیا تھا کہ کس طرح حمایت علی کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ ایک اخبار نے
لکھا تھا کہ آزاد ہندوستان میں اقبال اور ٹیگور کی روح اخبار بیچ رہی ہے۔ یہاں سے میں بیگم اور بیٹی کے ساتھ
اورنگ آباد چلا گیا اور وہاں سے بمبئی۔
ان دنوں بمبئی میں ساحر اپنی جگہ بنا چکے تھے۔ کچھ اور لوگوں سے بھی میری ملاقات تھی ۔ حیدرآباد کے ایک پروفیسرکی بیٹی اوشا بھی وہاں تھی۔ وہ بھی پہلے دکن ریڈیو میں نیوز ریڈر تھی۔ وہ اپٹا (IPTA (کے ساتھ کام کررہی تھی ۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک ڈرامہ اسٹیج کررہی ہے۔ اس نے ایک بھجن لکھنے کی خواہش کی۔ میں نے تب تک ایک حمد بھی نہیں لکھی تھی، کیونکہ حمدلکھنے کےلئے حوصلہ چا ہئے۔ اس سے کہا کہ میں بھجن کیسے لکھ سکتا ہوں؟ لیکن اس نے کہا کہ یہ مذہبی نہیں سیاسی بھجن ہوگا۔ دنیا کے حالات اچھےنہیں تھے۔ ہر طرف کچھ نہ کچھ تحریکیں چل رہی تھیں۔ تیسری جنگ عظیم کے خدشے ابھررہے تھے۔ اس کے خلاف ایک دستخطی مہم بھی چل رہی تھی۔ اوشا نے کہا کہ دستخطی بینر کے سامنے یہ ڈرامہ پیش ہوگا۔ اور ڈرامے کی ابتداءبھجن سے ہوگی۔ڈرامےکی خبر سی آئی ڈی کو ملی۔ اوشا اور دوسرے لوگ روپوش ہوگئے ۔ ڈرامے کے ساتھ میرانام ظاہر نہیں کیا گیا تھا، لیکن ڈر تھا کہ کوئی بتادے گا تو سی آئی ڈی پکڑ لے گی ۔ مسلم ضیائی بھی بمبئی آگئے تھے۔ کرشن چندر کے گھر پر سب جمع ہوجاتے تھے۔ انہیں دنوں میں نے انوملک کے دادا کے اسٹنٹ حسن لال بھگت رام کی ایک فلم کے لئے گیت لکھا۔ ان کی اس شرط پر کہ اسکرین پر نام نہیں ہوگا اور 200 روپے دئے جائیں گے۔ میں نے مان لیا۔ وہی گانا بہت ہٹ ہوگیا۔ لیکن میں سی آئی ڈی کے ڈر سے پہلے اورنگ آباد اور بعد میں والد کے کہنے پرکھوکھرا پار کے راستے ٹرین سے پاکستان چلا گیا۔ وہاں پر قائد اعظم کی مزار کے اطراف جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ وہیں جھیل کے قریب گرو مندر کے پاس حیدر آباد کالونی بھی تھی۔ میں نے بھی 50روپے میں ایک جھونپیڑی خریدی۔ مرزا ظفر خان صاحب بھی کراچی آ گئے تھے۔ میرے آنے کی خبر ملی تو انہوں نے مجھے بلایا اور ریڈیو پر ملازمت مل گئی۔ ابراہیم جلیس صاحب وہاں امروز اخبار میں کام کرنے لگے تھے۔ ان دنوں حیدر آباد(سنده) ریڈ یو نیا کھلا تھا اور وہاں درخواست داخل کی اور پھر وہاں ملازمت بھی مل گئی اور رہنے کے لئے ایک اچھا گھر بھی۔ اس طرح حیدر آباد(دکن) سے حیدرآباد (سندھ) کا سفر طے ہوا۔
ان دنوں بمبئی میں ساحر اپنی جگہ بنا چکے تھے۔ کچھ اور لوگوں سے بھی میری ملاقات تھی ۔ حیدرآباد کے ایک پروفیسرکی بیٹی اوشا بھی وہاں تھی۔ وہ بھی پہلے دکن ریڈیو میں نیوز ریڈر تھی۔ وہ اپٹا (IPTA (کے ساتھ کام کررہی تھی ۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک ڈرامہ اسٹیج کررہی ہے۔ اس نے ایک بھجن لکھنے کی خواہش کی۔ میں نے تب تک ایک حمد بھی نہیں لکھی تھی، کیونکہ حمدلکھنے کےلئے حوصلہ چا ہئے۔ اس سے کہا کہ میں بھجن کیسے لکھ سکتا ہوں؟ لیکن اس نے کہا کہ یہ مذہبی نہیں سیاسی بھجن ہوگا۔ دنیا کے حالات اچھےنہیں تھے۔ ہر طرف کچھ نہ کچھ تحریکیں چل رہی تھیں۔ تیسری جنگ عظیم کے خدشے ابھررہے تھے۔ اس کے خلاف ایک دستخطی مہم بھی چل رہی تھی۔ اوشا نے کہا کہ دستخطی بینر کے سامنے یہ ڈرامہ پیش ہوگا۔ اور ڈرامے کی ابتداءبھجن سے ہوگی۔ڈرامےکی خبر سی آئی ڈی کو ملی۔ اوشا اور دوسرے لوگ روپوش ہوگئے ۔ ڈرامے کے ساتھ میرانام ظاہر نہیں کیا گیا تھا، لیکن ڈر تھا کہ کوئی بتادے گا تو سی آئی ڈی پکڑ لے گی ۔ مسلم ضیائی بھی بمبئی آگئے تھے۔ کرشن چندر کے گھر پر سب جمع ہوجاتے تھے۔ انہیں دنوں میں نے انوملک کے دادا کے اسٹنٹ حسن لال بھگت رام کی ایک فلم کے لئے گیت لکھا۔ ان کی اس شرط پر کہ اسکرین پر نام نہیں ہوگا اور 200 روپے دئے جائیں گے۔ میں نے مان لیا۔ وہی گانا بہت ہٹ ہوگیا۔ لیکن میں سی آئی ڈی کے ڈر سے پہلے اورنگ آباد اور بعد میں والد کے کہنے پرکھوکھرا پار کے راستے ٹرین سے پاکستان چلا گیا۔ وہاں پر قائد اعظم کی مزار کے اطراف جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ وہیں جھیل کے قریب گرو مندر کے پاس حیدر آباد کالونی بھی تھی۔ میں نے بھی 50روپے میں ایک جھونپیڑی خریدی۔ مرزا ظفر خان صاحب بھی کراچی آ گئے تھے۔ میرے آنے کی خبر ملی تو انہوں نے مجھے بلایا اور ریڈیو پر ملازمت مل گئی۔ ابراہیم جلیس صاحب وہاں امروز اخبار میں کام کرنے لگے تھے۔ ان دنوں حیدر آباد(سنده) ریڈ یو نیا کھلا تھا اور وہاں درخواست داخل کی اور پھر وہاں ملازمت بھی مل گئی اور رہنے کے لئے ایک اچھا گھر بھی۔ اس طرح حیدر آباد(دکن) سے حیدرآباد (سندھ) کا سفر طے ہوا۔
ریڈیو،
فلم اور پروفیسر
حیدر
آباد(سندھ) میں رہتے ہوئے مشاعرے میں میری ایک نظم' ان کہی' کافی مشہور ہوئی تھی۔
لاہور میں فلمیں بننے لگیں تھیں۔ گورکھ پورسے آئے ایک میوزک ڈائکٹرکر خلیل احمد 'آنچل'
فلم کا میوزک دے رہے تھے۔ فلم کے ہدایت کار حیدر آبادی ( الحامد ) تھے۔ کہانی ابراہیم
جلیس نے لکھی تھی۔ مجھے ایک نغمہ لکھنے کے
لئے کہا گیا۔ فلم 1962ء میں ریلیز ہوئی
اور اس نغمے کے لئے مجھے پہلی ہی فلم پر نگار ایوارڈ ملا۔ اس کے بعد دوسری فلم 'دامن
'کے گیت لکھے۔ اس کے بھی مشہورنغمےکے لئے پھر نگار ایوارڈ ملا۔ تقریباً چار برس تک
سب سے اچھے نغمےکےلئے نگار ایوارڈمجھے ملتے رہے۔ میں نے سوچا میں خودفلم کیوں نہ بناؤں۔
پہلی قلم 'لوری' بنائی۔ احمد ندیم قاسمی نے اس کےمکالمے لکھے۔ حیدرآباد سندھ میں
رہتے ہوئے میرے ایک ڈرامے میں محمدعلی نے کام کیا تھا۔ وہ اب فلموں میں کام کرنے
لگا تھا۔ اس کو لے کر فلم بنائی اور فلم ہٹ رہی۔ دوسری فلم 'اندھیرے اجالے' نے گولڈن
جوبلی منائی۔ 1965ءکی لڑائی شروع ہوئی اور 1971ء تک پاکستان ٹوٹ گیا۔ ان دنوں میں فلم
'گڑیا 'بنانے میں مصروف تھا۔ پاکستانی فلموں کا ایک بڑا بازار اب بنگلہ دیش بن چکا
تھا اور اس لٖڑائی سے فلم انڈسٹری کو بڑے نقصان
کے دور سے گزرنا پڑا۔ اور پھر میں نے بهی فلمی دنیا چھوڑ دی۔
فلمی
دنیا چھوڑنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ محمد علی نے زیبا سے شادی کر لی تھی۔ اس کے چرچے گھر تک پہنچ گئے تھے۔ بچے بڑے ہونے
لگے تھے۔ بیگم نے کہا کہ میں فلمیں چھوڑ
کیوں نہیں دیتا۔ اسی بات پر فلم انڈسٹری چھوڑ دی۔ بمبئ سے اورنگ
آباد آنے کے بعد والد کے کہنے پر میں نے میٹرک کا ایک پر چہ لکھا اور پاکستان چلا گیا
تھا۔ وہاں جانے کے بعد پتہ چلا کہ میں پاس ہو گیا ہوں۔ خط لکھ کر صداقت نامہ
منگوایا ۔ والد نے کہا تھا کہ جب تک تعلیم حاصل نہیں کرو گے کامیاب نہیں ہو گے۔
میں نے حیدرآباد سندھ میں رہتے ہوئے ایک ایوننگ کالج سے تعلیم جاری رکھی اور ایم
اے کا امتحان کامیاب کیا۔ تعلیم سے یہ ہوا
کہ میں نے فلمی دنیا چھوڑ کر سندھ یونیورسٹی
میں ملازمت حاصل کر لی اور پروفیسر بن
گیا-
بچوں
کے نام
میرےبچوں کے نام پر اکژ لوگ چونک جاتے ہیں۔ جب
رکھے گئے تھے تب تو لوگ کہتے تھے کہ کیا نام ایسے
ر کھے جاتے ہیں۔ روشن خیال، اوج کمال،ظل جمال ،بلند اقبال ان ناموں کے پیچھے ایک
خاص وجہ ہے۔ پاکستان میں شیعہ سنی کے اختلا فات بڑھتے جارہے تھے۔ میں سید تھا۔
حمایت علی نام اور مرثیہ پڑھنے کی وجہ سے لوگ مجھے شیعہ
سمجھنے لگے تھے اس لئے میں نے سوچا کہ بچوں کے نام کچھ اس طرح رکھوں جس سے وہ ان
اختلافات کا حصہ نہ بنیں۔
آج
جب میں گزرے ہوئے لمحات کے بارے میں سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ کافی کچھ گزر
گیا۔ تقسیم کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت ابتدائی دنوں میں بڑی عجیب تھی۔
ایک گوشے میں یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ جب آپ کو ایک ملک دے دیا گیا ہے تو پھر آپ
یہاں کیوں رہتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے حالات بدلتے گئے۔
جہاں
تک دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کی بات ہے۔ خصوصا مسلمانوں کے خاندانی رشتے تو
قائم ہیں۔ آپسی شادیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔ میرے والدین یہاں رہے۔ بھائی بہن یہیں ہیں اور میں 1952 سے اب تک کئی بار
ہندوستان آ چکا ہوں۔ ابتدائی دنوں میں جب
میں کراچی میں تھا۔ یہ شہر مہاجروں سے بھرا ہوا تھا۔ سندھی علاقہ ہونے کے
باوجودلوگ اردو بولتے تھے۔ حیدرآباد (سندھ )میں رہتے ہوئے بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ
جو چان رہتا ہے کہ جو جہاں رہتا ہے، وہاں
کےتئیں ایماندار ہونا چاہئے۔ وطن پرستی بنیادی شرط ہے۔ چاہے ہندوستانی ہو یا
پاکستانی۔
( یہ انٹریو
روز نامہ اعتماد میں 18مارچ
2007 کو شائع ہوا تھا، جبکہ بعد میں کئ اور رسالوں نے اسے
ڈائجسٹ کیا)۔

بہت خوب آپ بڑے لڑکے ہیں جوان بڑی شخصیات سے آنکھیں چار کر سکے
ReplyDeleteHimayat Ali shayar ke bare mein aap ne bahut hi umda mazmoon likha hai.
ReplyDeleteAapko tahe Dil se mubarakbaad deti hun. Aap ki Nazar ye Chhota sa share pesh hai -
Aapka zauq e adab jari rahe
Aap likhate rahe hum padhte rahe.
Bahut bahut Mubarak F.M.saleem sahab
بھت خوب
ReplyDeleteBAHUT KHOOB. BAHUT ACHCHA NAZMOON LIKHA HAI.
ReplyDeleteFAROOQ SAYYED, MUMBAI