وہ جو پہیوں سے زیادہ پیروں پربھروسہ رکھتے ہیں

وہ جو پہیوں سے زیادہ پیروں پربھروسہ رکھتے ہیں

  •  دوسرا مضمون
لاک ڈاؤن کے دوران پورے ملک میں لوگ میلوں پیدل  چل کر اپنے گاؤں ، گھروں اور قصبوں  کی جانب لوٹتے دکھائی دئے۔   روزنامہ منصف میں لکھے گئے  کالم 'ہجوم میں چہرہ 'کی طرز کا یہ چھوٹا سا مضمون ڈیڑھ سے دو سال پہلے گاندھی بھون کے پاس ایک صاحب سے ملاقات کے بعد ہندی ملاپ کے لئےلکھا  گیا تھا،اس  بلاگ کے اردو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔



                .............................................            
                پتہ نہیں اس آدمی کو دیکھ کر میرے قدم اچانک کیوں رک سے گئے۔حیدرآباد میں گاندھی بھون سے لگے ٖفٹ پاتھ کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے اپنی رفتار کچھ کم کر دی۔ کبھی کبھی ہی تو پیدل چل کر کچھ دور تک پہنچنے کی خواہش ہوتی ہے اور اسے پورا کرنے کا وقت بھی کم ہی ملتا ہے۔ اس آدمی کے سامنے میری یہ خواہش بونی لگ رہی تھی۔ دبلا پتلا وہ شخص 80 سال  سے کسی بھی طرح کم نہیں ہوگا۔ سر پر انکل کیپ لگائے،   ایک ہاتھ میں کچھ کاغذ اور دوسرے ہاتھ میں لکڑی تھامے، جس رفتار سے وہ چل رہا تھا،  اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ اس کے ساتھ میں چلنے والی چینٹیاں بھی آگے نکل گئی ہونگی۔ بالکل دھیمی رفتار سے۔ اتنی دھیمی کہ جسے تقریبا  زیرو رفتار کہا جا سکتا ہے۔ میں رک رک کر  کئی بار آگے پیچھے ہوتا رہا اور پھر ہمت جٹا کر پوچھ ہی لیا۔ کہاں جا رہے ہیں صاحب؟
'ملےپلی!' 

 اس شخص نے بڑے ہی دھیمے انداز  میں کہا، جیسے میرے کان میں پھسپھسانا چاہتا ہو ۔ اس نے بتایا کہ وہ پیدل ہی یہ فاصلہ طے کر لےگا۔ میری حیرت کی انتہا  تھی۔ جہاں ہم کھڑے تھے، محلہ ملےپلی وہاں سے  ڈیڑھ سے دو کلومیٹر سے کسی بھی طرح کم نہیں تھا  اور ضعیف شخص کے چلنے کی رفتار دیکھ کر کوئی بھی یہ سمجھ سکتا تھا تین چار گھنٹے تو لگ ہی جا ئینگے۔ سر پر کڑی دھوپ تھی، پھر بھی اس شخص کے چہرے پر نہ تھکان کا کوئی نشان تھا اور نہ ہی دوسروں کی رفتار کو دیکھ کر کسی طرح کا دکھ۔ پتہ چلا کہ، ان کا نام محمد احمد ہے اور  وہ ایک دو دن میں ایک آدھ بار ادھرادھر اسی طرح چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

            آج جب ہم آرام پرستی کی دنیا میں جی رہے ہیں اور ایک دو فرلانگ بھی چل کر جانے کی قوت ارادی نہیں رکھتے، لیکن کچھ لوگ ہیں کہ جنہیں  جسمانی ناطوانائی کے باوجود   اندھن سے چلتی گاڈیوں کے مقابلے اپنے پیروں پر زیادہ بھروسہ ہے۔

            پھر کچھ لوگ یاد آئے،  جو پیدل چلنے کی اس تہذیب کے سفیر کہلائے جا سکتے ہیں۔ غزل گائک استاد وٹھل راؤ بغل میں ایک چھوٹا سا بیگ دبائے حیدرآباد سے اکثر سکندرآباد تک پیدل سفرکیا  کرتے تھے۔ مشہور شاعر منظور احمد منظور  اردو ادب کی نہیں بلکہ پیدل چلنے کی بھی ایک خاص چلتی پھرتی تہذیب سمجھے جاتے تھے،  جو روزانہ پرانے شہر کے نورخان بازار سے پنجاگٹا  تک پیدل آتے جاتے تھے۔ بھارت نیوز کے ایڈٹر اعجاز قریشی بھی اکثر ایم جے مارکیٹ کی سڑک پر پیدل چلتے دکھائی دیتے۔ میری ایک دوست نے بتایا کہ ان کی نانی گولی گڑا سے حسینی علم تک اکثر پیدل ہی جاتیں، بلکہ کئی بار انہوں نے اپنے گھر کے گاڑی رکھنےوالے نوجوانوں کو یہ جتانے کی کوشش بھی  کی کہ انہیں پیدل چلنے میں ہی  زیادہ خوشی ملتی ہے۔

            آج ایسے لوگ بہت کم دکھائی دیتے ہیں، جو پیدل چلتے ہوئے دوردور تک جانا چاہتے ہیں۔ خاص کر حیدرآباد میں، اس لئے بھی کہ انہیں ایسا کرنے کے لیے ٖفٹ پاتھ  کا نظام حوصلہ افزا نہیں ملا ہے۔ سڑکیں کسی خطرے سے خالی نہیں ہیں۔ پھر بھی بینگلور، چینئی اور نئی دہلی جیسے شہروں میں دور دور تک پیدل چلتے لوگوں کو دیکھ کر حیدرآباد کے لوگوں اور یہاں کے بلدیہ کو اس بارے میں سوچنا چاہیئے کہ صحت کو بنائے رکھنے کے لیے اس چھوٹے سے نسقے کو اپنا کر وہ  نہ صرف موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کو کچھ کم کر سکتے ہیں، بلکہ جسم کو بھی اس بات کا احساس دلا سکتے ہیں کہ پہیوں سے زیادہ پیروں پر بھروسہ بنا رہے۔ 




Comments

  1. ماشاءاللہ
    بہت عمدہ ہے
    محترم

    ReplyDelete
  2. ماشاء اللہ.... ہمیشہ کی طرح دلچسپ اور نصیحت سے پُر تحریر... جزاک اللہ خیرا بھائی

    ReplyDelete
  3. خوبصورتی سے احاطہ کیا ہے آپ نے، پر اثر تحریر

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

دنیا مٹھی میں کرنے کے باوجود آدمی مشکل میں ہے : وحید پاشا قادری

ایک تہذیب کا سفر- پرنسس اندرا دھنراجگير کی یادوں میں بسا حیدرآباد

دکن ریڈیو سے آل انڈیا ریڈیو تک ... منظور الامین کی یادوں کا سفر