! کیا گھر مجھ سے پیار کرتا ہے
ان دنوں ہم لوگ لاک ڈاون میں اپنےگھروں میں بند ہیں- دنیا کے
شور شرابے سے دور کچھ سوچ بچار کرنے کے لئے وقت مل گیا ہے۔ کچھ پرانے مزامین
ہیں،قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
پہلا مضمون-
میں اکثر
سوچتا ہوں، کہ میں گھر کیوں جاتا ہوں،، مجھے گھر کیوں جانا چاہیئے؟ گھر میں کیا
ہے، جو مجھے بلاتا ہے، جس کی کشش سے میں کھینچا چلا جاتاہوں؟ آفس کا کام پورا
کرنے کے بعد ایسا کیا ہے، جو مجھے سیدھے گھر کی جانب کھینچتا ہے، بیچین کرتا ہے کہ مجھے
کہیں اور جانے کے بارے میں نہ سوچ کر جلد سے جلد گھر کی جانب جانا چاہیئے۔ پھر میں
سوچتا ہوں، کہ بہت سارے لوگ ہیں، جو گھر جاکر بھی گھر نہیں جاتے، گھر کے پاس کسی
پان کی دکان یا چائے خانے پر بیٹھ کر گپے مارتے ہیں، چبوترے پر بیٹھ کر رات کا
کافی سارا حصہ گھر کے باہر ہی بتا گزار دیتے ہیں۔ تو پھرمجھے گھر کیوں جانا
چاہیئے؟
جب شہر کی پولس نے چبوترہ کیمپین شروع
کیا تھا، تب بھی میں سوچتا رہا کہ کیوں لوگوں کو گھر اپنے اندر نہیں سماتا، کیوں
نہیں وہ اپنے اندر رہنے والوں کو اتنا پیار کرتا کہ ایک بار جب تھکے ہارے لوٹ آییں
تو پھر سے باہر جانے کے بارے میں نہ سوچیں۔ گھر میں رہنے اور اس کا پیار پانے کے
لیے بیچینی بڑھتی رہے اور آدمی دفتر سے گھر کی دوری کے لمبے لمبے راستے طے کرتا،
ٹرافک کے نہ ختم ہونے والے سمندروں میں تیرتا، میدانوں میں دوڑتا اور پہاڑوں اور
وادیوں کو چیرتا ہوا اپنے گھر پہنچے۔ آخر
گھر ہے کیا، گیٹ، دالان، پارکنگ، دروازے، کھڑکیاں، باتھ روم، کچن، بیڈروم، نل
وغیراہ، وغیراہ۔۔۔ یا پھر اس میں رہنے والے لوگ!
بچے آخرکار
دیر رات تک چبوتروں پر کیوں بیٹھتے ہیں؟ کیوں وہ وقت پر اپنے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔
کئی خواتین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کے نوجوان شوہر جب کام سے گھر لوٹتے ہیں تو
پاس کی ہوٹل اور پان کے ڈبے پر دیر رات تک اپنا وقت خراب کرتے ہیں۔ یہی ان کی سوشل
سرفنگ ہے اور یہی ان کا فیس بک بھی اور نئے دور کے نوجوان گھر میں اپنے کمروں میں
گھس کر بھی انٹرنیٹ سرفنگ اور گھر سے باہر کی دنیا سے چیٹنگ میں مشغول ہو جاتے
ہیں۔ اب ٹیلی ویجن بھی انہیں اپنے سے ذیادہ دیر تک باندھے نہیں رکھتا۔
آخر سوال یہ ہے کہ کیا اینٹ، پتھر،
سیمنٹ، کنکریٹ، اسٹیل اور لکڑی کے در و دیواروں کا مکان ہی گھر ہے؟کیا گھرکو گھر
بنانے والے لوگ، اس میں رہنے بسنے والے لوگ، اسے خوشبودار، خوشگوار اور خوشکن
بنانے والے لوگ گھرنہیں ہیں؟ جس طرح ابتدائی جماعتوں میں تعلیم حاصل کرنے والےبچے
اسکول چھوٹنے کی گھنٹی کا انتیظار کرتے ہوئے اپنی ماں سے جلد سے جلد ملنے اور اس
سے اپنی جماعت میں ہوئی ساری باتیں بتانے کے لیے بیچین رہتے ہیں، کیا اسی طرح ماں،
بھائی، بہن، باپ، بیوی، شوہر اور بچے، اپنے ہمدم، ہم راز ، ہمجولی اور ایک ہی چھت
کے نیچے سانس لینے والے لوگ آپس میں دوسرے جانداروں سے بتیاتے ہیں، سنتے ہیں،
سناتے ہیں؟ کیا وہ آپس میں کام سے گھر آنے
کی خواہشمندی کا سبب بن پاتے ہیں؟ شاید یہ ہر گھر کا نصیب نہیں بن پاتا۔
ہمارے شہری پن نے ہم سے
ایک ایک کر کے یہ سب خوبیاں چھین لی ہیں اور ہمارے ہاتھ میں ایکاکی اور تنہا ہوتے
چلے جانے کے سامان تھما تھما دیا ہے۔ اب دادا، دادی، نانا نانی، چاچا چاچی، پھوپی،
خالہ جیسے رشتے بھی گھر کے اندر نہیں رہے، جو کبھی گھر کی رونق اورکشش ہوا کرتے
تھے۔
میں پھر
سوچتا ہوں،، بلکہ دیکھتا ہوں، ان پرندوں کو جو شام ہوتے ہی اپنے گھونسلوں کی جانب
لوٹتے ہیں، انہوں نے اپنے لیے کوئی چبوترہ نہیں بنایا ہے، ان پرندوں نے کوئی پان
کا ڈبہ، ہوٹل یا میخانہ نہیں بنا رکھا ہے، جس کو وہ گھونسلوں پر اہمیت دے سکیں۔ اس
لئے بھی کہ وہ انسان نہیں ہیں۔

مبارک جناب
ReplyDeleteشکریہ پروفیسر
ReplyDeleteساھب
बहुत खूब
ReplyDeleteमुबारक
Kya baat hai jawaab nahi
ReplyDeleteشکر ہے ک آپ بچکے۔
ReplyDelete*Work from Home!*
*Boss* : "I called u.Ur wife picked the phone n told dat u were cooking. Y did not u call me back?"
*Employee*: "I called u back sir. *Ur wife picked da phone n told dat u were washing clothes!*
بہت خوب ۔ بےحس لوگوں کے لئے نہیں ہے یہ تحریر ، ایک حساس کےلئے بہت کچھ قلمبند ہے ۔ ماشاء اللّٰہ
ReplyDeleteماشاء اللہ... بہت عمدہ تحریر سلیم بھائی... واقعی
ReplyDeleteاپنے گھر سے اپنے رشتے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے
بہت خوب نقشہ کھینچا ہے سر آپ نے ،کے ہم گھر میں ہوتے ہوئے بھی گھر پر نہیں ہیں
ReplyDeleteبقول شاعر
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا
سب کا شکریہ
ReplyDeleteBahut khoob bhai
ReplyDeleteBahut mubarak saleem saheb bahtareen peshraft hai
ReplyDelete