کہانی آخر ہو ہی گئ


اس کہانی میں کوئی ہیرو نہیں ہے۔  ہیروئن بھی نہیں ہے۔ یقین مانئے ، جب ہیرو اور ہیروئن دونوں نہیں ہیں، تو پھر ولن کے ہونے کے امکانات بھی تقریبا  کم ہوجاتے ہیں۔ پھر بھی کہانی ہو چکی ہے، اور آپ اسے پڑھ  بھی رہے ہیں۔

 ابھی کل ہی کی بات ہے۔ صبح کچھ دیر پہلے ہی دستک دے چکی تھی۔ دروازہ کھولتے ہی میں اوپری منزل کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے صحن کے باہر سے اندر جھانکتی شیطوط کے درخت کی  ایک ٹہنی سے ٹکرایا۔ جیسے ہی اس میں حرکت ہوئی، ایک چڑیا پھرر سے اڑی اور دوسری ٹہنی پر  جا بیٹھی۔ میں نے اگلی سیڑھی پر قدم بڑھایا۔ ابھی قدم پوری طرح سیڑھی پر رکھا بھی نہیں تھا کہ اچانک ایک آواز آئی۔
سنو!
مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہم سمجھ کر مڑا ہی تھا کہ پھر وہی آواز۔

سنو!
دیکھا تو وہاں ہلتی ہوئی ٹہنی اور دوسری ٹہنی پر بیٹھی چڑیا کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ چڑیامیری طرف کچھ اس طرح دیکھ رہی تھی جیسے میرا چہرہ اس کے لیے جانا پہچانا ہو۔ مجبوراً مجھے بھی اسی انداز میں اس کی جانب دیکھنا پڑا۔ جان پہچان ہو گئی تھی۔ بات آگے بڑھی۔ چڑیا کو شاید اسی وقت کا انتظار تھا۔ وہ کہنے لگی،
 -  تم وہاں رکے کیوں نہیں۔ بڑے لیکھک بنے پھرتے ہو، تمہیں وہاں رک جانا چاہیئے تھا۔ جب کوئی حادثہ ہوتا ہے، تو بھلا لیکھک اس کو نظر اندازکیسے کر سکتا ہے۔
چڑیا کی آواز میں ایک عجیب قسم کی شکایت تھی۔ مجھے بڑا دھچکا لگا کہ وہ میرے لیکھک ہونے پر سوال اٹھا رہی ہے۔ اس سے ذیادہ اس بات پر حیرت بھی تھی کہ وہ مجھے کیسے جانتی ہے۔ میں نے اپنے جزبات کو قابو کرتے ہوئے چڑیا سے پوچھ ہی لیا،
-  تمہیں کیسے پتہ کہ میں وہاں نہیں رکا؟
 چڑیا نے فوری جواب دیا، -   میں وہیں تھی۔ تمہیں دیکھ رہی تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ تم وہاں کیوں نہیں رکے۔ میں تمہارے ساتھ تمہارے گھر تک آئی۔ تمہیں اسی وقت پوچھنا چاہتی تھی، لیکن تم اپنے کمرے میں گھسے تودیر تک باہر نہیں نکلے۔ شام ہوتی دیکھ میں مجبوراً اپنے گھونسلے کی طرف اڑ گئی۔ میں اپنے کو روک نہیں پائی اور آج صبح سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ کل تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ ایک لیکھک کو اپنے کرداروں کے بارے میں ذیادہ سے ذیادہ جاننا کی کوشش کرنی چاہیئے۔ وہ بھی تو تمہاری کہانی کا کردار تھا۔

میں سمجھ گیا وہ کل شام کے ایک حادثے کے بارے میں جاننا چاہتی تھی- میں کہنے لگا،
 -  تم اس نوجوان کی بات کر رہی ہو نا جو کٹورا ہاؤز کے پاس حادثے  میں زخمی ہو گیا تھا۔ اس کا نام شیکھر تھا۔ میں وہاں رکا بھی اور اس کے گھر بھی گیا۔ اس کے بارے میں تمہیں کیا جاننا ہے۔ یہی نا کہ وہ گھر سے کیوں نکلا تھا؟ کہاں جا رہا تھا؟ حادثے میں زخمی ہونے کی وجہ سے کیا وہ اپنا کام پورا کر پایا؟ یا پھر اس کے اسپتال پہنچنے سے اس کا وہ کام ادھورا رہ گیا؟

چڑیا بےچینی سے میری طرف دیکھے جا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک طرح کی پیاس تھی۔ میرے رکنے کا انتظار بھی نہیں کیا، بات کاٹتے ہوئے کہنے لگی، - تم لیکھک لوگ سوال ہی کرتے ہو، بلکہ سوالوں میں گھرے رہتے ہو۔
میں نے کہا، سوال ہی ہماری پونجی ہیں۔ سوال نہیں کرینگے تو جواب کیسے تلاش کرینگے۔ سوال زندگی بھی ہیں، جیتے رہنےاور جیے جانے کے لیے ضروری بھی ہیں۔ جب سوال ہی نہیں رہینگے تو پھر جواب کی تلاش کون کریگا۔۔ 
میں نے چڑیا کے چہرے کی اور غور سے دیکھا، وہ سنے جا رہی تھی۔ میں پھر سے سنانے لگا۔ٛ    ۔۔۔، تم نے شیکھر کے روپ میں بس ایک کردار دیکھا ہے، لیکھک کے لیے وہ صرف ایک کردار نہیں ہے، اس میں کئی کردار چھپے ہیں۔ کئی کہانیوں کے پلاٹ بھی وہیں آس پاس بکھری لکیروں میں تصویر  کی شکل اختیار کر رہے ہوتے ہیں۔
شیکھر ایک بھائی تھا، جو اپنی بہن کی شادی کے رقعے لے کر گھر سے نکلا تھا۔ جب وہ گاڑی پر سے گرا تو سارے رقعے آس پاس بکھر گئے تھے۔ وہ  انہیں ان کے پتوں تک  نہیں پہنچا پایا۔ اسے شام میں اپنے گھر کے لیے کچھ سامان بھی لانا تھا۔ گھر میں مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام بھی کرنا تھا، نہیں کر پایا۔
شیکھر وہ نوجوان بھی ہو سکتا تھا، جو اپنی نوکری کے لیے انٹرویو دینے جا رہا ہے۔ دس بجے اس کا انٹرویو ہے اور نو بجے سڑک حادثے میں زخمی ہوکر اسپتال پہنچا ہے۔ وہ اپنی نوکری پر جانے والا ملازم بھی ہو سکتا تھا، جسے دفتر کی ایک اہم فائل تیار کرکے اپنے باس کو سومپنی ہے۔ وہ ایک پولس والا بھی ہو سکتا تھا، جسے پردھان منتری کی سرکشا کے لیے ڈیو ٹی پر چڑھنا تھا۔ وہ ماں کا ایکلوتا بیٹا، ایک عورت کا اکیلا سہارا اور یا کسی دوشیزہ سے بےحد پیار کرنے والا ایک عاشقکا کرداربھی ہو سکتا تھا۔
چڑیا اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں پھیلا کر دیکھے جا رہی تھی۔ کہنے لگی، ''تم تو وہاں رکے نہیں، پھر یہ سب۔۔۔۔''

میں نے اس کی بات کاٹتے ہوۓ کہا،      - میں اپنے باطن میں بسنے والے لیکھک کو وہاں چھوڑ آیا تھا۔ وہی لیکھک، جس کی یادوں میں انگنت کردار بسے رہتے ہیں۔ اس کی یادیں ہی اس کی کہانیوں کی پونجی ہوا کرتی ہیں۔ وہ صرف اس زخمی نوجوان کے ہی نہیں، بلکہ ان تماش بینوں کے گھر بھی گیا تھا، جو وہاں کھڑے ہوکر بس دیکھے اور بتیائے جا رہے تھے۔ لیکھک اسپتال بھی پہنچ گیا۔ علاج کرنے والے ڈاکٹر سے بھی ملا۔ ایک اور بات کہوں، وہ زخمی ہونے والا کردار  بھی لیکھک ہی تھا۔
چڑیا کی آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک تھی۔ وہ کچھ اور کہتی، اس سے پہلے میں نے اس کے حیرت میں اضافہ کرتے ہوئے کہا، میں یہ بھی جانتا ہو کہ تم اپنے گھونسلے میں دو بچوں کو چھوڑ آئی ہو، تمہیں واپس پیڑ پر جانا ہے، ان کے پر نکلنے لگے ہیں۔ انہیں اڑنے اور شکاری سے بچنے کی نصیحت بھی کرنی ہے۔ لیکن چڑیا میں آج بہت خوش ہوں۔ یہ جان کر کہ تم میرے کرداروں سے ملتی رہتی ہو۔ بلکہ نئے نئے کرداروں کی تلاش میں میری مدد کرتی رہوگی۔ میں تمہاری آواز سنتا رہوںگا۔



Comments

Popular posts from this blog

دنیا مٹھی میں کرنے کے باوجود آدمی مشکل میں ہے : وحید پاشا قادری

ایک تہذیب کا سفر- پرنسس اندرا دھنراجگير کی یادوں میں بسا حیدرآباد

دکن ریڈیو سے آل انڈیا ریڈیو تک ... منظور الامین کی یادوں کا سفر