دل کا راستہ- ایک افسانہ
'تمہاری
پنڈلیاں بہت خوبصورت ہیں۔'
'کیا بکواس
ہے۔'
'کیوں
کیا تمہیں اپنی پنڈلیوں کی تعریف سننا پسند نہیں۔'
'عجیب
آدمی ہو۔ اتنے سال سے ساتھ ہو، تم نے کبھی میرے چہرے کی تعریف نہیں کی اور اب تمہیں
پنڈلیوں کی تعریف سوجھی ہے۔'
'میں نے
تمہارا چہرہ کبھی غور سے نہیں دیکھا۔ دیکھا بھی ہو تو یاد نہیں ہے کہ اس چہرے میں تم
تھیں بھی یا نہیں۔ آج جب پانی میں پیر ہلاتے ہوئے تمہاری پنڈلیوں پر نظر پڑی تو محسوس
ہوا کہ وہ بہت خوبصورت ہیں۔ رہا نہیں گیا، اس لئے کہہ دیا۔ اگر تمہیں برا لگا ہو تو
میں اپنے بول واپس لے لیتا ہوں۔'
'نہیں
ایسا نہیں ہے، تعریف بھلا کسے اچھی نہیں لگتی، لیکن افسوس تو رہے گا کہ جس چہرے کو
میں آئینے میں گھنٹوں نہارتی رہتی ہوں، اس میں تمہاری کوئی دلچسپی نہیں ہے اور اب پنڈلیوں
میں۔۔۔'
'نہیں
تم بالکل غلط سمجھ رہی ہو۔ میری نیت بالکل صاف ہے، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ تمہاری
پنڈلیاں بہت ہی سڈول، گوری اور خوبصورت ہیں،
لگتا ہے کسی بہت ہی ماہر کاریگر کی تراشی ہوئی ہیں۔ ایک اور بات۔۔ سنو۔۔ انھیں دیکھ
کر ان پر کوئی اور بناوٹی پنڈلی ہونے، یا پنڈلی کے پیچھے کوئی اور پنڈلی چھپی ہونے
کا احساس بالکل نہیں ہوتا۔ یہاں جو دکھ رہا ہے، وہی سچ ہے۔ اتنی سچائی تمہارے چہرے
پر ڈھونڈ نہیں پایا۔ ۔۔۔۔ شائد میں اتنا ہوشیار نہیں بن پایا کہ چہرے کو اچھی طرح جان
پہچان پاؤں۔ ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے کہ میں جو سمجھ رہا ہوں، چہرے پر وہی ہے یا کچھ اور۔'
'۔۔۔ سارے
مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔'
'اور ساری
عورتیں…۔ !' کہتے ہوئے سندیش سنجنا کے چہرے کی اور تاکتا رہا۔
'چلو چھوڑو
یہ مرد-عورت کا جھگڑا۔ ہم وہاں، اس طرف، اس ٹیلے پر چلتے ہیں۔ وہاں سے جھرنے کا منظر
کافی اچھا دکھائی دیتا ہے۔’ سنجنا کی بات پر دونوں جھرنے پر بنے چھوٹے سے پل سے اٹھے
اور ٹیلے کی طرف چل پڑے۔ دونوں کی دوستی ایک دو دن کی نہیں بلکہ پندرہ سال کی ہے۔ سنجنا
ایک اسکول میں پڑھاتی ہے اور سندیش دفتر کا بابو ہے۔
دونوں جب اس شہر میں آئے تھے تو اجنبی تھے۔ ایک ہی کالج میں
پڑھتے تھے۔ ایک دن کالج کی سیڑھیوں پر ٹکرائے تو جان پہچان کا سلسلہ چل نکلا۔ سنجنا
کے بہت سارے دوست تھے۔ ان میں سے ایک سندیش بھی تھا۔ ڈگری کے تین سال کے دوران بہت
سے اتار چڑھاو آئے۔ سنجنا خوبصورت بھی تھی اور سارے گروپ میں پڑھنے لکھنے میں بھی اچھی۔
سبھی سے اس کی دوستی تھی۔ انل، جئیش، ساکیت، دشا پانچ لوگوں کے اس گروپ میں اچھی دوستی
ہو گئی تھی۔ کالج کی کینٹین میں ہونے والی چائے-سموسا پارٹی ہو یا ہفتے میں ایک بار
آئیسکریم یا پھر مہینے میں ایک-آدھ بار کوئی اچھی سی فلم، پانچوں دوست ایک ساتھ ہوتے۔
آخری سال کے امتحان سے کچھ پہلے سنجنا نے اچانک ایک دن ایک نئے چہرے کو اپنے دوستوں
سے ملایا- یہ راکیش تھا۔
راکیش سے سنجنا کی قربت بھی کچھ ہی پل میں سب کی سمجھ میں آئی
اور امتحان کے کچھ دن بعد دونوں کی شادی کا دعوت نامہ بھی چھپ گیا۔ وقت اپنی رفتار
سے آگے بڈھتا گیا۔ وہ تو دوست اور دشمن سبھی کے لئے برابر رہتا ہے۔ اب پانچوں دوست
کبھی-کبھار ہی مل پاتے۔ پانچ-چھہ سال بڑی تیزی سے گزر گئے۔ ایک دن پتہ چلا کہ راکیش
ایک سافٹویر کمپنی میں نوکری ملنے کے بعد امریکہ چلا گیا ہے اور کچھ دن بعد امریکہ
میں اس کی دوسری شادی اطلاع آئی۔ سنجنا کے لئے یہ بڑا صدمہ تھا، لیکن اس نے اپنے کو
سنبھال لیا۔ اس نے ایک اسکول میں ٹیچری کرتے ہوئے اپنی زندگی کو سمیٹنے کی کوشش کی۔
انل، جئیش، ساکیت اور دشا نے بھی الگ-الگ اپنی گرہستھی بسا لی تھی۔ سندیش کی زندگی
میں ایک دو لڑکیاں آئیں اور چلی گئیں۔ کسی
کے ساتھ بات شادی تک پہنچ نہیں پایی۔ وہ اکیلا ہی رہا۔
کچھ ضرورت تھی اور کچھ وقت کا مرہم، سنجنا اور سندیش کی پرانی
دوستی کے تازہ ہونے کے اسباب پیدا ہو گیے۔ دونوں نزدیک آتے چلے گئے۔ اب اسکول اور دفتر
کے بعد دونوں اکثر کسی پارک، ریستراں یا تفریحی مقام پر ساتھ ہو لیتے۔ دیر تک بتیاتے
اور اپنے-اپنے آشیانوں کی طرف چل پڑتے۔
دونوں میں اکثر سماج، سیاست، ادب اور نہ جانے کن کن موضوعات
پر بات چیت ہوتی۔ ایک دوسرے کے ہمدرد بھی تھے اور ساتھی بھی۔ ضرورتیں اتنی نہیں تھیں
کہ کوئی کسی پر انحصار کرتا یا ادھار ہی مانگ لیتا۔ کھانے-پینے اور خریدداری میں کس
کی جیب سے کتنے پیسے خرچ ہو رہے ہیں، اس کے حصاب کی بھی فکر نہیں تھی، لیکن دونوں کے بیچ بھی ایک
ہلکی سی لکیر تھی، ایک فاصلہ بنا رہا۔ پیار محبت کی چنگاریوں کو ہوا دینے کی کوشش شائد
دونوں نے ہی نہیں کی۔ سندیش ایسا کر بھی لیتا، لیکن سنجنا نے کئی بار اس بات کا اشارہ
کیا تھا کہ پیار محبت پر اس کا وشواس نہیں رہا۔ اتنا ہی غنیمت تھا کہ اس دوستی کو کسی
کی نظر نہیں لگی۔ ہنس بول کر ہی سہی وقت بیت رہا تھا۔ پینتیس-چالیس کی عمر نہ ہوتی
تو لوگ انہیں کالج کے ساتھی ہی سمجھتے۔
اس دن بھی دونوں جھرنے کے پل سے اٹھ کر ٹہلتے ہوئے ٹیلے کے پاس
پہنچ گئے۔ ایک پتھر پر بیٹھ کر نیچے جھیل کا نظارہ کرنے لگے۔ سنجنا کو رہ رہ کر سندیش
کی وہی بات کچوٹے جا رہی تھی کہ اس کے چہرے پر سندیش نے کیوں کبھی غور نہیں کیا۔ کئی
سارے سوال اس کے من میں آنے لگے۔ وہ اپنی بیچینی کو دبا نہیں سکی اور آخرکار پوچھ
ہی بیٹھی۔
'کیا تمہیں
مجھپر بھروسہ نہیں ہے؟'
'تم ایسا
کیوں سوچ رہی ہو؟'
'تمنے
ایسا کیوں کہا کہ میرے چہرے میں سچائی نہیں ہے؟'
'میں نے
ایسا بالکل نہیں کہا۔'
'تم نے
ایسا ہی کہا۔'
'بالکل
نہیں، میں نے کہا کہ میں تمہارے چہرے پر سچائی ڈھونڈ نہیں پایا۔'
'اس کا
مطلب کیا ہوا؟'
'یہی کہ
یہ کمی مجھی میں ہی رہی کہ تمہیں پوری طرح نہیں سمجھ پایا۔'
'سندیش
ہم پندرہ سال سے دوست ہیں۔ چھہ سال سے اکثر، بلکہ روز ہی ملتے ہیں۔ چھٹیاں بھی لگبھگ
ساتھ ہی بتاتے ہیں۔ میں نے ان چھہ سالوں میں تمہارے علاوہ کسی کے ساتھ کبھی دل کی بات
بتانے کی کوشش تک نہیں کی۔ کوئی خاتون بھی میری ایسی دوست نہیں ہے، جتنے قریب تم ہو۔'
'میں نے
کب انکار کیا ہے۔'
'پھر بھی
کہتے ہو کہ تم نے میرا چہرہ نہیں دیکھا۔'
'یہ سچ
ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ سچ یہ ہے کہ تمہارے چہرے پر ہمیشہ ایک دوسرا چہرہ لٹکا رہا،
جس میں ہمیشہ تم یہ بتاتی رہی ہو کہ تم نے حالات پر قابو پا لیا ہے۔ تم ایسا دکھاتی
رہی ہو کہ تمہاری زندگی میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ تم مطمئن ہو، تمہیں کسی کی پرواہ
نہیں ہے، بلکہ کئی بار تمہاری آنکھوں میں جو دکھتا ہے، تمہارا چہرہ وہ باتیں بھی چھپانے
کی کوشش کرتا ہے۔'
'تو کیا
تم یہ سمجھتے ہو کہ میں اپنے گزرے دنوں اور بچھڑے پتی کے بارےمیں ہر دن کوستی رہوں
یا پھر یہ سمجھتے ہو کہ گلے لگ کر رونے کے لئے کوئی سہارا تلاش کروں۔'
'نہیں
میں ایسا نہیں سوچتا۔ تم نئے دور کی عورت ہو۔ خود مکتفی ہو۔ کسی کے رہم و کرم پر رہنے
کی تمہیں ضرورت نہیں ہے۔ دنیا تمہارے لئے بہت بڑی ہے، لیکن خوش رہنے کے لئے اور بھرپور
جینے کے لئے ایک چھوٹی دنیا کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لئے ایک پورے فلیٹ کی بھی
ضرورت نہیں ہے، بلکہ ایک کمرہ بھر کافی ہے۔ جہاں تم کسی کے گلے لگ کر روؤ نہ روؤ، لیکن
کھل کر ادھیکار کے ساتھ کسی سے لڑ سکو۔ اپنی زندگی کو اپنے ہی اندر چھپانے کے لئے بناوٹی
چہرے کی ضرورت نہ پڑے۔ چہرے پر ایک پورے کا پورا اصلی چہرہ جی سکو۔'
'کیا میں
نے ایسی کوشش نہیں کی۔ تمہیں تو پتہ ہے، میں نے جی جان سے جسے چاہا، وہ پرایا ہو گیا۔'
'ہم کسی
کوشش میں اگر ناکام ہوتے ہیں تو کیا پھر سے کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ جب ہم ہماری
عام زندگی میں ایسا نہیں کرتے تو پھر خود کی خوشیوں کا نظرانداز کیسے کر سکتے ہیں۔
میں نے بہت بار تمہیں یہ بتانے اور جتانے کی کوشش کی، لیکن پتہ نہیں تم کیوں نہیں سمجھ
پائی۔’
سندیش کی باتیں سنتے ہوئے سنجنا کا گلا رندھ آیا تھا۔ وہ اپنے
چہرے پر لگائے رکھے خول کو اتار پھینکنا چاہتی تھی۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ اپنی باہیں
سندیش کے گلے میں ڈالیں اور پھوٹ-پھوٹکر رونے لگی۔ جب سارا غبار نکل گیا تو دونوں نے
ایک دوسرے کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ شاید کہنا چاہتے تھے کہ اب دو الگ-الگ راستوں پر
جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ شام ہونے کو تھی۔ سورج ٹیلے کے اس پار سمندر کی دوسری جانب جینے والون کو روشنی پہنچانے کے لئے نکل پڑا تھا- ٹیلے کے نیچے جھرنا اپنے مست انداز میں بہہ رہا تھا۔
سنجنا نے ٹیلے سے اٹھتے ہوئے پھر پوچھا، کیا اب بھی پنڈلیاں
ہی خوبصورت ہیں۔
سندیش نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ہاں، انہیں سے دل تک کا راستہ
بنا ہے۔


Comments
Post a Comment