ایک پرانی بینچ کا احوال


کہتے ہیں دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ کان ہوتے ہوں گے تو منہ اور زبان بھی ہوتی ہوگی۔ شائد یہی سوچ کر کسی شاعر نے کہا تھا،
 راستہ دیکھ کے چل ورنہ یہ دن ایسے ہیں
 گونگے پتھر بھی سوالات کرینگے تجھ سے
 ٹھوکر لگتی ہے تو ہمارا دھیان فوری طور پر اپنے پیر کے انگوٹھے اور انگلی کی طرف جاتا ہے، جس سے خون رس رہا ہوتا ہے، لیکن ہم اس پتھر کی نہیں سنتے، جو کہہ رہا ہوتا ہے که راستے میں پتھر، کانٹے اور نہ جانے کیا کیا چیزیں ہوتی ہیں، جس سے آپ کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ذرا دیکھ کر چلنا چاہئیے۔ غور کریں تو پائیں گے که  قدرتی نظام، ماحول اور ہمارے آس پاس کی چیزیں ہمیں کچھ کہنا چاہتی ہیں، لیکن ہم اکثر اسے ان سنا کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر وہ ہم سے کچھ کہتے ہیں تو کیا کہتے ہیں، یقیناً یہ آواز باہر سے نہیں بلکہ اپنے ضمیر سے ہی سننی پڑیں گی۔ چلیے اسی بہانے کچھ چیزوں سے رو برو ہوتے ہیں۔۔۔۔

باغیچے کے کونے میں پڑی ایک پرانی بینچ
چل جھوٹی۔۔۔ بھلا اسے میری آواز کیونکر سنائی دیگی۔ وہ بولتا ہی جا رہا تھا۔ بلکہ سامنے بیٹھی اپنی نئی محبوبہ سے ڈھیر سارے وعدے کر رہا تھا۔ لڑکی کو وہ باتیں بہت بھلی لگ رہی تھیں۔ وہ اپنی خوبصورت آنکھوں سے اسے ٹکٹکی لگائے دیکھے جا رہی تھی۔ لڑکا اپنی عادت سے مجبور بولے جا رہا تھا۔ چار دن پہلے بھی تو اس نے یہی کچھ کہا تھا، لیکن سامنے کوئی اور لڑکی تھی۔ شائد اس نے اس کا جھوٹ پکڑ لیا تھا۔ اور آج وہ کسی دوسری لڑکی کے ساتھ یہیں آ بیٹھا تھا۔
ایسے کتنے ہی لمحے میری آنکھوں میں قید ہیں۔ پرانی ہی صحیح، لیکن گارڈن کے ایک کونے میں پڑی بینچ ہوں۔ لوگ تنہائی کی تلاش میں آتے ہیں۔ کبھی کسی کے ساتھ کوئی ساتھی، دوست ہم کلام ہوتا ہے تو کبھی کوئی اکیلا ہی اپنی سوچوں میں گم، بیٹھے بیٹھے سستاتا ہے، اونگھنے لگتا ہے۔ سکھ دکھ میں، میں ایکساں طور پر لوگوں کا ساتھ دیتی ہوں۔
میری کہانی بہت بڑی نہیں ہے۔ گارڈن جب نیا نیا بنا تھا، کارپینٹر نے بڑے ہی پیار سے مجھے بنایا تھا۔ کئی کلومیٹر دور ایک جنگل سے کاٹی گئی لکڑی سے تختے تراشے گئے، رنگ روغن کے بعد میری خوبصورتی اور نکھر گئی۔ مجھے گارڈن کے باب الداخلہ سے کچھ دوری پر بالکل سامنے رکھا گیا۔ آس پاس رنگین پھولوں کے پودھے بھی تھے، جن سے خوشبو کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ روز صفائی ہوا کرتی۔ پھر ایک دن سامنے کے اس حصے میں جب ایک عمارت کی تعمیر کی گئی تو مجھےوہاں سے اٹھاکریہاں اس کونے میں ڈال دیا گیا۔ بیجان سی پڑی رہتی ہوں۔
ہر آدمی کی زندگی میں بہت ساری یادیں ہونگی۔ لوگ اپنے اسکول کی مختلف درجات میں اس بینچ کو بالکل نہیں بھولتے، جس کو وہ اپنی  مستقل جاگیر سمجھ بیٹھتے ہیں، لیکن ایک سال بعد جب وہ اگلی جماعت میں چلے جاتے ہیں، تو انہیں احساس ہو جاتا ہے که کبھی کچھ مستقل نہیں ہوتا۔ ان پر لکھے ان کے نام مٹا کر کوئی اپنا نام لکھ دیتا ہے۔ میں وہیں پڑی رہتی ہوں، وہ آگے نکل جاتے ہیں۔
پتہ نہیں میرے اجداد کا تعلق کس چیز سے سب سے پہلے رہا ہوگا، لیکن اتنا طے ہے که لکڑی سے ہی بنائی گئی ہوگی۔ بنانے والے نے سوچا ہوگا که ایک دو لوگ اس پر بیٹھ کر سستا لیں گے۔ کبھی پیٹھ کو ٹکانے کے لئے پیچھے کا حصہ بنایا گیا تو کبھی ایسے ہی کھلا چھوڑ دیا گیا۔ دن گزرتے گئے، لوگوں نے پھر لوہے اور دیگردھاتوں سے بھی مجھے مختلف شکلوں میں ڈھال دیا- سیمنٹ کنکریٹ سے بھی بنائی گئی اور اب تو پتھروں میں بھی تراشا جانے لگا ہے۔ وہ دیکھیے سامنے ہی رکھی ہے ایک اور بینچ، کچھ پرانی چیزوں کی ری سائکلنگ سے بنائی گئی ہے۔
https://fmsaleemurdu.blogspot.com/

Comments

Popular posts from this blog

دنیا مٹھی میں کرنے کے باوجود آدمی مشکل میں ہے : وحید پاشا قادری

ایک تہذیب کا سفر- پرنسس اندرا دھنراجگير کی یادوں میں بسا حیدرآباد

دکن ریڈیو سے آل انڈیا ریڈیو تک ... منظور الامین کی یادوں کا سفر