کہانی آخر ہو ہی گئ
ا س کہانی میں کوئی ہیرو نہیں ہے۔ ہیروئن بھی نہیں ہے۔ یقین مانئے ، جب ہیرو اور ہیروئن دونوں نہیں ہیں، تو پھر ولن کے ہونے کے امکانات بھی تقریبا کم ہوجاتے ہیں۔ پھر بھی کہانی ہو چکی ہے، اور آپ اسے پڑھ بھی رہے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے۔ صبح کچھ دیر پہلے ہی دستک دے چکی تھی۔ دروازہ کھولتے ہی میں اوپری منزل کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے صحن کے باہر سے اندر جھانکتی شیطوط کے درخت کی ایک ٹہنی سے ٹکرایا۔ جیسے ہی اس میں حرکت ہوئی، ایک چڑیا پھرر سے اڑی اور دوسری ٹہنی پر جا بیٹھی۔ میں نے اگلی سیڑھی پر قدم بڑھایا۔ ابھی قدم پوری طرح سیڑھی پر رکھا بھی نہیں تھا کہ اچانک ایک آواز آئی۔ سنو ! مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہم سمجھ کر مڑا ہی تھا کہ پھر وہی آواز۔ سنو ! دیکھا تو وہاں ہلتی ہوئی ٹہنی اور دوسری ٹہنی پر بیٹھی چڑیا کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ چڑیامیری طرف کچھ اس طرح دیکھ رہی تھی جیسے میرا چہرہ اس کے لیے جانا پہچانا ہو۔ مجبوراً مجھے بھی اسی انداز میں اس کی جانب دیکھنا پڑا۔ جان پہچان ہو گئی تھی۔ بات آگے بڑھی۔ چڑیا کو شاید ا...