Posts

Showing posts from 2020

حمایت علی شاعر

Image
حمایت علی شاعر   جنہوں نے حیدرآباد کے مقبروں میں گزاری تھیں کئی راتیں بر صغیر کی بہت ہی مشہور شخصیت حمایت علی شاعر کو گزرے اس  16 جلائی (2020)کو پورا ایک سال ہو رہا ہے۔ اردو ادب خصوصاً شاعری میں ان کا بڑا نام تھا۔   ان کی پیدائش اورنگ آباد میں ہوئی تھی۔ اورنگ آباد سے حیدرآباد، ممبئی اور پھر پاکستان سے کناڈا تک کے ان کی زندگی کے سفر میں اتفاق یہ تھا کہ میرے لئے بھی ایک دن مختص تھا۔  مارچ 2007 کی ایک شام ان سے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی۔ سلام علیک کےبعد انہوں نے بتایا کہ وہ گنڈی پیٹ کے راستے میں تارامتی بارہ دری میں رکے ہوئے ہیں۔ رات 9 بجے کے قریب لینڈ لائن پر فون کیا، سوچا کہ وقت مل جائے تو رات میں ہی پہنچ جاؤنگا، لیکن وہ بہت تھکے ہوئے تھے۔  صبح ملنے کے لئے راضی ہو گئے۔  یہ وہی وقت تھا جب میں مختلف شخصیتوں سے مل کر دکن کی یادیں سمیٹ رہا تھاَ۔ اور پھر حمایت علی شاعر صاحب کے پاس تو یادوں کا خزانہ تھا- جسے حاصل کرنے کےلئے مجھے صبح 7 بجے ہی تارامتی بارادری میں  ان کے کمرے پر پہنچنا تھا اور میں حاضر ہو گیا- کمرے میں کچھ...

وہ جو پہیوں سے زیادہ پیروں پربھروسہ رکھتے ہیں

Image
وہ جو پہیوں سے زیادہ پیروں پربھروسہ رکھتے ہیں   دوسرا مضمون لاک ڈاؤن کے دوران پورے ملک میں لوگ میلوں پیدل  چل کر اپنے گاؤں ، گھروں اور قصبوں  کی جانب لوٹتے دکھائی دئے۔   روزنامہ منصف میں لکھے گئے  کالم 'ہجوم میں چہرہ 'کی طرز کا یہ چھوٹا سا مضمون ڈیڑھ سے دو سال پہلے گاندھی بھون کے پاس ایک صاحب سے ملاقات کے بعد ہندی ملاپ کے لئےلکھا  گیا تھا،اس  بلاگ کے اردو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔                  .............................................                              پتہ نہیں اس آدمی کو دیکھ کر میرے قدم اچانک کیوں رک سے گئے۔حیدرآباد میں گاندھی بھون سے لگے ٖفٹ پاتھ کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے اپنی رفتار کچھ کم کر دی۔ کبھی کبھی ہی تو پیدل چل کر کچھ دور تک پہنچنے کی خواہش ہوتی ہے اور اسے پورا کرنے کا وقت بھی کم ہی ملتا ہے۔ اس آدمی کے سامنے میری یہ خواہش بونی لگ رہی تھی...

! کیا گھر مجھ سے پیار کرتا ہے

Image
      ان دنوں ہم لوگ لاک ڈاون میں اپنےگھروں میں بند ہیں- دنیا کے شور شرابے سے دور کچھ سوچ بچار کرنے کے لئے وقت مل گیا ہے۔ کچھ پرانے مزامین ہیں،قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔  پہلا مضمون-               میں اکثر سوچتا ہوں، کہ میں گھر کیوں جاتا ہوں،، مجھے گھر کیوں جانا چاہیئے؟ گھر میں کیا ہے، جو مجھے بلاتا ہے، جس کی کشش سے میں کھینچا چلا جاتاہوں؟ آفس کا کام پورا کرنے کے بعد ایسا کیا ہے ، جو مجھے سیدھے گھر کی جانب کھینچتا ہے، بیچین کرتا ہے کہ مجھے کہیں اور جانے کے بارے میں نہ سوچ کر جلد سے جلد گھر کی جانب جانا چاہیئے۔ پھر میں سوچتا ہوں، کہ بہت سارے لوگ ہیں، جو گھر جاکر بھی گھر نہیں جاتے، گھر کے پاس کسی پان کی دکان یا چائے خانے پر بیٹھ کر گپے مارتے ہیں، چبوترے پر بیٹھ کر رات کا کافی سارا حصہ گھر کے باہر ہی بتا گزار دیتے ہیں۔ تو پھرمجھے گھر کیوں جانا چاہیئے؟              جب شہر کی پولس نے چبوترہ کیمپین شروع کیا تھا، تب بھی میں سوچتا رہا کہ کیوں لوگوں کو ...

کہانی آخر ہو ہی گئ

Image
ا س کہانی میں کوئی ہیرو نہیں ہے۔  ہیروئن بھی نہیں ہے۔ یقین مانئے ، جب ہیرو اور ہیروئن دونوں نہیں ہیں، تو پھر ولن کے ہونے کے امکانات بھی تقریبا    کم   ہوجاتے ہیں۔ پھر بھی کہانی ہو چکی ہے، اور آپ اسے پڑھ  بھی رہے ہیں۔  ابھی کل ہی کی بات ہے۔ صبح کچھ دیر پہلے ہی دستک دے چکی تھی۔ دروازہ کھولتے ہی میں اوپری منزل کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے صحن کے باہر سے اندر جھانکتی شیطوط کے درخت کی  ایک ٹہنی سے ٹکرایا۔ جیسے ہی اس میں حرکت ہوئی، ایک چڑیا پھرر سے اڑی اور دوسری ٹہنی پر  جا بیٹھی۔ میں نے اگلی سیڑھی پر قدم بڑھایا۔ ابھی قدم پوری طرح سیڑھی پر رکھا بھی نہیں تھا کہ اچانک ایک آواز آئی۔ سنو ! مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہم سمجھ کر مڑا ہی تھا کہ پھر وہی آواز۔ سنو ! دیکھا تو وہاں ہلتی ہوئی ٹہنی اور دوسری ٹہنی پر بیٹھی چڑیا کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ چڑیامیری طرف کچھ اس طرح دیکھ رہی تھی جیسے میرا چہرہ اس کے لیے جانا پہچانا ہو۔ مجبوراً مجھے بھی اسی انداز میں اس کی جانب دیکھنا پڑا۔ جان پہچان ہو گئی تھی۔ بات آگے بڑھی۔ چڑیا کو شاید ا...