Posts

Showing posts from February, 2017

یادوں کے جزیرے سے ۔۔۔۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد

Image
ڈاکٹر حسن الدین احمد صاحب ممتاز دانشوروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ سابق نظام حکومت اور اس کے بعد آزاد ہندوستان اور پھر ریاستی حکومت میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے پولیس ایکشن کے پہلے اور بعد کا زمانہ دیکھا۔ آئی اے ایس عہدیدار کے طورپر مرکزی حکومت کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دیں۔ معاشی ‘ تہذیبی ‘ ادبی اور مذہبی امور میں ان کی گہری دلچسپی رہی۔ ان کی تحریروں کا سلسلہ 19ویں صدی کے چوتھے دہے میں ہی شروع ہوگیا تھا۔ 1944  سے لے کر اب تک مختلف موضوعات پر ان کی تقریباً دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اردو کے طالب علم رہتے ہوئے انہوں نے دنیا بھر میں اپنی ایک خاص شناخت بنائی۔ ان کی زندگی کے اہم واقعات‘ پرانی یادیں اور بدلتی دنیا پر ان کے خیالات جاننے کے لئے تقرباً 7 سال پہلے ان سے ان سے ملاقات کی تھی۔ اس  بات چیت کا خلاصہ انہیں کی زبانی یہاں پیش ہے۔ ........................................  والد مرہٹواڑہ کی عدالت میں تھے۔ میری پیدائش کے کچھ دن بعد ہی والدہ  کا جالنہ تبادلہ ہوگیا۔ وہاں مدرسہ فوقانیہ عثمانیہ میں پانچویں جماعت...

ایک تہذیب کا سفر- پرنسس اندرا دھنراجگير کی یادوں میں بسا حیدرآباد

Image
راجكماری اندرا دھنراجگير حیدرآباد کے ایک مشہور جاگیردار اور ادب نواز راجہ دھنراجگير کی بیٹی ہیں۔ یہ گھرانا ان بہت کم خاندانوں میں سے ایک تھا، جو حیدرآباد کی آصف جاہی حکومت اور یہاں کے نوابوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ حیدرآباد میں پان باغ محل ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ اسی ماحول میں راجکماری نے ہوش سنبھالا۔ اپنے والد کے ساتھ رہتے ہوئے شاہی دربار اور نوابوں، جاگیر داروں کے خاندانوں سے ان کے اچھے تعلقات رہے۔ حیدرآباد سے انڈو - اینگلين شاعرہ کے طور پر بھی انہوں نے دنیا بھر میں اپنی خاص شناخت بنائی۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی کی سینیٹ رکن رہی ہیں۔ آل انڈیا ومینس کانفرنس کے ساتھ ان کا گہرہ تعلق رہا، اس کی اندھرا پردیش شاخ کی صدر رہیں۔ آندھرا پردیش ہندی اکیڈمی کے صدر کے عہدے پر رہتے ہوئے تیلگو کی ادبی تخليقات کا ہندی میں ترجمہ کروانے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔ ایف ایم سلیم کے ساتھ بات چیت پر مبنی کچھ یادیں یہاں راجکماری اندرا دھنراجگیر کی ہی زبانی پیش ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مما بتاتی ہیں کہ میں تین سال تک بات نہیں کر پائی تھی۔ وہ ڈر گئی کہ میں کہ...

اس شہر نے مجھے ہنسنا، بولنا اور جینا سکھایا

Image
میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ حیدرآباد میں روزی روٹی تلاش کرتے ہوئے اس شہر کے ماضی کی یادوں کو سمیٹتا جاؤں گا۔ خوش نصیب ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے اس شہر کے گلی کوچوں اورمحلوں میں اپنی زندگی گزاری ہے، یہاں کے ہوا پانی اور ماحول میں رہ کر اس کو خوشبودار بنایا، ان یادوں کے سایوں اور باتوں کے اجالوں میں حیدرآباد کی پچھلی صدیوں کی سیر کرنے کا موقع مجھے ملا۔ لوگوں سے ملنے اور ان کے بارے میں جاننے ا ور لکھنے کی شروعات تو اسکول کے زمانے سے ہی ہوئی تھی اور اس ڈائری کو امّی نے آج بھی ایک صندوق میں محفوظ رکھا ہے۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ رہنمائے دکن، پرجا سہایتا، ہندی ملاپ، روزنامہ منصف، اعتماد، سیاست، ماہنامہ شگوفہ، یور اسٹوری جیسے اردو اور ہندی کے موقر اخبارات اور ویب سائٹ نے میری حوصلہ افزائی کی۔ جہاں تک اردو میں لکھنے کی بات ہے تو مشہور مزاح نگارمسیح انجم نے میرے کان پکڑے، ہاتھ تھاما، پیٹھ تھپتھپائی، نئی خوبصورت شاہراہوں کا مسافر بننے کی ترغیب دی۔پھر تو لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا والی بات ہو گئی۔ میرے رہبروں اور ہم سفروں کی فہرست میں دو اور نام اہم ہیں ،شگوفہ کے ...